جاپان، رکاوٹوں سے ترقی تک کا سفر
ایک انگریز عالم مسٹر آئن ہش (Ian Hish)جاپان گئے۔ انہوں نے وہاں گیارہ سال رہ کر جاپانی زبان سیکھی اور گہرائی کے ساتھ جاپانی قوم کا مطالعہ کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے مطالعہ اور تحقیق کے نتائج 238صفحات کی ایک کتاب میں شائع کیے ہیں جس کا نام ہے ’’جاپان کی کہانی‘‘(The Story of Japan)اس میں مصنف لکھتے ہیں: جاپانی قوم کی زندگی کو جس چیز نے سب سے گہرائی کے ساتھ متاثر کیا وہ سیاست نہیں تھی بلکہ کانٹو کا عظیم زلزلہ تھا۔
یکم ستمبر 1923ء کو زلزلہ کے زبردست جھٹکوں نے مشرقی جاپان کو تہس نہس کر دیا جو کہ جاپان کا سب سے زیادہ آباد علاقہ تھا۔ دوسرا انسانی ساخت کا زلزلہ 1945ء میں جاپان کی شکست تھی۔ جب دو ایٹم بموں نے جاپان کے دو انتہائی بڑے شہروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ … ’’زلزلہ‘‘ سے اگر تعمیرِ نو کا ذہن پیدا ہو تو زلزلہ ایک نئی ترقی کا زینہ بن جاتا ہے۔
اس کے برعکس اگر زلزلہ صرف محرومی اور جھنجھلاہٹ کا احساس پیدا کرے تو اس کے بطن سے سیاسی چیخ و پکار وجود میں آتی ہے جو نتیجہ کے اعتبار سے اتنا بے معنی ہے کہ اس سے زیادہ بے معنی چیز کوئی نہیں۔
کسی انسان کی زندگی میں سب سے زیادہ اہم چیز عمل کا جذبہ ہے۔ آدمی کے اندر عمل کا جذبہ پیدا ہو جائے تو اس کے اندر کی تمام سوئی ہوئی قوتیں بیدار ہو جاتی ہیں۔ وہ زیادہ بہتر طور پر سوچتا ہے۔ زیادہ کامیاب منصوبہ بناتا ہے اور زیادہ محنت کے ساتھ اپنے کام کی تکمیل میں لگ جاتا ہے۔
اس کے برعکس جس آدمی کے اندر عمل کا جذبہ نہ ابھرے وہ اس طرح سست پڑا رہتا ہے جیسے کوئی مشین غیر متحرک حالت میں خاموش پڑی ہوئی ہو۔ اور تجربہ بتاتا ہے کہ اطمینان اور آسودگی کے حالات عام طور پر آدمی کی قوتوں کو سلاتے ہیں، وہ اس کے اندر بیداری پیدا نہیں کرتے۔
اس کے برعکس جب آدمی کی زندگی مشکلوں اور رکاوٹوں سے دوچار ہو تو اس کے اندر چھپی ہوئی قوتوں کو جھٹکا لگتا ہے۔ اس کی صلاحیتیں اسی طرح جاگ اٹھتی ہیں جیسے کوئی آدمی بے خبر سو رہا ہو اور اس کے اوپر پتھر گر پڑے۔
تاہم یہ فائدہ کسی کو اپنے آپ نہیں مل جاتا ۔ ہر معاملہ میں ایک ابتدائی حصہ آدمی کو خود ادا کرنا پڑتا ہے۔ جب بھی آدمی کی زندگی میں کوئی ’’بربادی‘‘ کا واقعہ پیش آئے تو وہ اس کو دو امکانات کے درمیان کھڑا کر دیتا ہے۔ وہ یا تو اس سے سبق لے کر ازسر نو متحرک ہو کر اپنی نئی تعمیر کرتاہے۔ یا اس سے مایوسی او رشکایت کی غذا لے کر سرحد پر اس کی پوری زندگی چل پڑتی ہے۔ اس کے مطابق اس کی اندرونی صلاحیتیں اپنا عمل کرنے لگتی ہیں۔
جب بھی آدمی کی زندگی میں کوئی حادثہ پیش آئے تو اسے حادثہ کو دیکھنے کی بجائے اپنے آپ کو دیکھنا چاہیے۔ مستقبل کے کسی بھی نتیجہ کا سارا انحصار اس پر ہوتا ہے کہ آدمی حالات کے مقابلہ میں کس قسم کے ردِعمل کا اظہار کرتا ہے۔ تعمیرِ نو کا جذبہ پیدا ہو تو یہ مثبت ردِ عمل ہے جو لازماً کامیابی تک پہنچاتا ہے۔ اور اگر احتجاج اور شکایت کا ذہن ابھرے تو یہ منفی ردِ عمل ہے جس کا آخری انجام مزید بربادی کے سو ا کچھ نہیں۔