میڈ ان پاکستان پروڈکٹس کا تعارف سیریز (اول)

روح افزاء ابھی مفتاح اسماعیل کی عام مسافروں کے اپنے ذاتی سامان میں بنیادی امپورٹڈ اشیاء کے ساتھ لانے پر پوسٹ لکھی تو کچھ لوگوں کا اعتراض سامنے آیا تو سوچا اب ایک پوری سیریز ہی لکھی جائے۔

شاید کوئی پاکستانی بھی ایسا نہیں ہوگا جو اس پاکستانی پروڈکٹ "روح افزاء” کو نہ جانتا ہو گا۔ قریب ایک صدی سے یہ پروڈکٹ پاکستان سے پہلے دھلی سے حکیم عبد المجید صاحب نے جڑی بوٹیوں سے ایک دوائی جو گرمی کے موسم میں ہیٹ اسٹروک کے مقابل انسانی جسم کو سہارا دینے کے لئے بنائی تھی، جسے ہمدرد دواخانہ نے بعد میں کاروباری نقطہ نظر سے تسلسل دیا، یہ دوا بعد میں بطور شربت مقبول ہو گئی اور پاکستانی مشروب کہلائی، اور پوری دنیا میں اسے صرف پاکستانی یا بنگالی یا ہندوستانی پیتے ہیں۔

غیر ممالک کے لوگ بہرحال نہیں پیتے، مگر چونکہ کثیر پاکستانی طبقہ اس مشروب کے ذائقے کا عادی ہے اس لئے یہ پوری دنیا کے کئی ممالک میں ایکسپورٹ ہوتی ہے، شاید پوری دنیا میں ایکسپورٹ کے حوالے سے یہ ان چند پروڈکٹس میں سب سے اوپر ہے جس پر ہم فخر کے ڈھول پیٹ سکتے ہیں۔

معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈھکن تک تبدیل نہیں کیا گیا ہے

لیکن کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کا حقیقی معیار کیا ہے، پاکستان میں یہ روح افزاء ہمیشہ خالص پھلوں سے تیار کردہ پروڈکٹ کہہ کر بیچی جاتی ہے۔ جب کہ یہی پروڈکٹ جب پہلی بار پاکستانی پیکنگ میں کسی بھی ملک میں بیچی گئی تو جو اجزاء ترکیبی اس کی تیاری کے طور پر لکھے تھے اس کی وجہ سے یہ ہر ملک کی ایکسپورٹ پالیسی کے تحت ان لیبارٹریز کے لئے قابل قبول نہیں تھی۔ اس لئے اب روح افزاء کی پاکستان اور امریکا یا دوسرے ممالک کے لئے الگ الگ پیکنگ میں ہوتی ہے۔

آپ تصویر میں پاکستانی روح افزاء میں پھل اور پھول دیکھ سکتے ہیں۔جب کہ باہر بھیجی جانی والی روح افزاء کی پیکنگ میں آپ کو یہ سارے پھل غائب نظر آئیں گے ۔ کیونکہ ان ممالک کو آپ دھوکہ دیکر بیچ نہیں سکتے۔ بس یہی فرق ہے۔ امریکہ اور یورپ میں جس جوس میں چینی ڈالی جائے، اس پروڈکٹ پر پھلوں کی تصویر لگانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ پھلوں کی تصویر صرف اس صورت میں ہی لگا سکتے جس میں واقعی پھلوں کا جوس ہو، اور اگر پانی بھی ڈالیں گے تب بھی اس پر پھلوں کی تصویر لگانے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ اس میں وضاحت دی جاتی ہے کہ اس پروڈکٹ میں کون کون سے اجزاء کا تناسب سے موجود ہیں۔

امریکہ اور پاکستان کیلئے روح افزاء کے الگ الگ معیار ہیں جسے پیکنگ اور کوالٹی سے محسوس کیا جا سکتا ہے

وہاں اس بات کو دھوکہ دہی سمجھا جاتا ہے،جبکہ ہمارے ہاں تو خوشبو اور ذائقے کے ایسنس کی بنیاد پر بننے والے جوسز کے پیکٹس پر بھی پھلوں کی تصاویر ہوتی ہیں۔ ویسے تو پاکستان میں پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی PSQCA نامی ایک ادارہ موجود ہے، جس نے ان معیارات کا خیال رکھنا ہوتا ہے، اس کے علاوہ کنزیومر ایسوسی ایشن آف پاکستان بھی ایک ادارہ ہے جو صارفین کو ان کے حقوق سے متعلق آگاہی کے لیے اپنے دفتروں میں موجود ہیں، اس کے علاوہ فوڈ سیفٹی کا مسئلہ بھی پیداوری شعبے سے لے کر خورد فروشی اور کنزیومر تک پہنچنے تک تمام پراسیس میں معاون شعبوں میں اہمیت رکھتا ہے۔

جو ان تمام عناصر کا احاطہ کرے جو انسانی صحت کے لیے مضر ثابت ہوتے ہیں، غیر مناسب زرعی طریقے، غذائی اجزاء کی تیاری میں ناقص معیار، ملاوٹ، غیر معیاری کیمیکل کا استعمال غیر معیاری ذخیرہ کرنے اور ناقص پروسسینگ، فوڈ سیفٹی پوری دنیا کے اربوں انسانوں کی صحت اور سلامتی کا براہ راست وابستہ ہے، جس کے لئے World Health Organization کے فوڈ سیفٹی کے لئے انتہائی سخت ریگولیٹری قوانین موجود ہے۔

پاکستان میں بھی فوڈ سیفٹی کو یقینی بنانے کے لیے ہمیں فوڈ سپلائی چین یعنی پیداواری سرگرمیوں، ذخیرہ کر نے کی گنجائش، سپلائی، ڈسٹری بیوشن دکانداری تک تمام مراحل پر سخت چیک اینڈ بیلنس کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں پاکستان اسٹینڈرڈ اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی جو ملک بھر میں اسٹینڈرڈز اور معیارات برقرار رکھنے کے لیے سب سے بڑی اتھارٹی ہے اس کا کردار اتنا قابل ستائش ہے کہ پاکستان میں ایکسپورٹ فوڈ میں سب سے بہترین پروڈکٹ پاکستان میں جھوٹ کے نام پر بکتی ہے اور غیر ملک میں واضح اجزائے ترکیبی کے نام پر بکتی ہے۔

پاکستان میں ہماری حکومتوں اور معیار کا اس سے اندازہ لگائیں کہ ہمارا سب سے بڑا ملکی برانڈ "روح افزاء” تین نسلوں تک اپنا ذائقہ تو منتقل کرچکا ہے، مگر اس کی انتظامیہ نے آج تک اس کے ڈھکن کا معیار بہتر نہیں کیا، اج بھی آپ کو روح افزا پچھتر برس پہلے کی طرح بھری سے ہی کاٹنا پڑتا ہے۔ اب ہم اس روح افزاء کے ڈھکن پر فخر ہی کر سکتے ہیں۔ جو ہم ازکم میڈ ان پاکستان تو ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button