اوورسیز پاکستانیوں کے چاکلیٹ لانے پر پابندی
ہم عجیب لوگ ہیں وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل دو دن پہلے ٹی وی پر کہہ رہا تھا کہ باہر ممالک سے اپنے سامان میں دس کلو چاکلیٹ لانے والا شخص چاکلیٹ تجارت کے لئے لاتا ہے، حالانکہ میں ذاتی طور پر بیسیوں دفعہ دس کلو سے زائد چاکلیٹ صرف تحائف کے لئے پاکستان لے گیا ہوں، مزید میں نے مزدور طبقات کو دس کلو سے زائد چاکلیٹ لے جاتے دیکھا ہے۔
یہ لوگ پاکستانیوں سے ہر خوشی ہر غذا چھین لینا چاہتے ہیں، مفتاح اسماعیل خود اسی بزنس سے وابستہ ہے، اور افسوس کی بات ہے کہ یہ لوگ خود جانتے ہیں کہ یہ لوگ پاکستان میں کیا اور کتنی گھٹیا معیار کی بچوں کی کنفیکشنری کی پروڈکٹ بناتے ہیں۔ ان کے اپنے بچے ان کی فیکٹریوں میں بننے والی کنفیکیشنریز نہیں کھاتے، مزید ظلم یہ ہے کہ یہ تو پاکستان میں رجسٹرڈ مقامی برانڈز ہیں جن کا معیار اتنا گھٹیا ہے، جبکہ پاکستان میں 80 فیصد کنفیکیشنریز جو دیہاتوں اور شہروں کے چھوٹے اظلاع یا علاقوں میں ملتی ہیں وہ سب غیر معیاری اور فیک ان لیگل فیکٹریوں کی جعلی پروڈکٹس ہوتی ہیں۔
پاکستان میں ہر کچھ عرصے میں ایک غلغلہ اٹھتا ہے کہ بین الاقوامی اشیاء کا بائیکاٹ کر دیں، کتے اور بلیوں کی غذا باہر سے برآمد کی جاتی ہے، وغیرہ وغیرہ۔
یہ آوازیں اکثر کسی مغربی ملک کے کسی فیصلے، کبھی کسی مذہبی توجیہ کے ساتھ یا اکثر ہمارے حکمران سیاستدان ملکی قرضوں کی مد میں کہتے ہیں، ان حکمرانوں کی اپنی عیاشیاں لگژری گاڑیاں وغیرہ تو سب موجود رہیں گی اور ان بے شرموں کی اپنی اولادیں بیرون ممالک کی پروڈکٹس کھاتی ہیں، مگر پاکستان میں نہ معیار اچھا کر سکتے ہیں نہ ہی یہ اس معیار کی کوئی چیز پاکستان آنے دینا چاہتے ہیں۔
پھر ایک اور معصوم طبقہ ہمیں یہ کہتا ہے کہ پاکستانی پروڈکٹ استعمال کریں، مجھے پاکستان میں بننے والی ایک کنفیکیشنریز ، مشینری ، فوڈ پروڈکٹ یا کسی بھی سطح پر کوئی ایک چیز کا نام بتا دیں جو کسی معیار پر پورا اترتی ہو۔
جھوٹی کہانیاں بنانے میں ہم ماہر ہیں۔ ان مفاد پرست حکمرانوں کو نہ پاکستان کا خیال ہے نہ ہی یہاں کی عوام کی معیار زندگی کا خیال ہے، نہ ہی یہ پاکستان میں انسانوں کو اچھی غذا یا اچھی زندگی سے کوئی غرض رکھتے ہیں، صرف حکمرانوں کے کاروبار سے متعلقہ اشیاء آپ کو شائد معیاری مل جائیں جیسے موجود حکمرانوں کی فیکٹریوں کا لوہا یا چینی بنانے والے کارخانے۔ بس اور کچھ نہیں۔