حکومت مضبوط ہونے کے تاثر میں کتنی حقیقت؟

تحریک انصاف کو ایوان کے اندر اور باہر ہزہمت کا سامنا، مزاحمتی بیانیہ دم توڑ گیا، دو ماہ سے پہلے لانگ مارچ کے امکانات محدود، اتحادی حکومت کو کام کرنے کا موقع مل گیا

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لانگ مارچ ختم کرتے وقت وفاقی حکومت کو چھ روز کی مہلت دی تھی کہ اس دوران اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے الیکشن کا اعلان کر دیا جائے اس مہلت کو ختم ہونے میں ایک روز باقی ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان جلد لانگ مارچ کا پروگرام تشکیل نہیں دے پائیں گے۔ انہیں پہلی دفعہ اندازہ ہوا ہے کہ جب سیاسی جماعت اپنے وسائل کی بنیاد پر لانگ مارچ کرتی ہے تو اسے کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

تحریک انصاف کا لانگ مارچ کیوں ناکام ہوا؟ اس پر بہت لکھا جا چکا ہے تاہم اب یوں دکھائی دیتا ہے کہ اتحادی حکومت کو تحریک انصاف کی طرف سے جس سخت مزاحمت کا سامنا تھا وہ سلسلہ تھم چکا ہے۔ تحریک انصاف کو ایوان کے اندر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے پاس احتجاج کا راستہ رہ گیا، عمران خان نے جس طرح پورے ملک کے بڑے شہروں میں پے در پے جلسے کئے اس سے اندازہ ہونے لگا تھا کہ وہ حکومت کے خلاف لاکھوں لوگوں کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے یہی وجہ تھی کہ عمران خان کا بیانیہ مقبول ہونے لگا تھا، ملک میں سیاسی عدم استحکام کو دیکھتے ہوئے ہر شخص نئے الیکشن کا مطالبہ کر رہا تھا مگر اب حالات تبدیل ہو گئے ہیں، تحریک انصاف کے بیک فٹ پر جانے سے اتحادی حکومت مضبوط ہوئی ہے، اندرونی خلفشار ختم ہونے سے بیرونی سطح پر حالات سازگار ہو رہے ہیں۔

آئی ایم ایف اور دوست ممالک نے مالی تعاون کی یقین دہانی کرا دی ہے، ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافے کو سٹاپ لگا ہے اس کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ ہوا ہے مگر یہ بہت کم ہے ڈالر کا دو سو روپے کر پہنچنا پاکستانی معیشت کیلئے تباہ کن ہے۔

اب جبکہ اتحادی حکومت خطرات سے باہر نکل آئی ہے تو اس کی تمام تر توجہ معیشت کی بحالی پر ہونی چاہئے بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا اتحادی حکومت مختصر مدت میں ملک کو معاشی بحران سے باہر نکالنے میں کامیاب ہو پائے گی؟ ہماری دانست میں اتحادی حکومت کو تحریک انصاف سے جو ریلیف ملا ہے وہ وقتی ہے، عمران خان لانگ مارچ کی ناکامی پر قیادت سے سخت نالاں ہیں وہ اپنی نگرانی میں حکومت کے خلاف دوبارہ منصوبہ بندی کر رہے ہیں اطلاعات ہیں کہ چودہ اگست کو جب موسم بہتر ہو جائے گا تو وہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے، چودہ اگست لانگ مارچ کی تیاری آسان کام نہیں ہے کیونکہ ورکرز کو باہر نکلنے کیلئے آمادہ کرنا، موسم کا خیال کرنا اور لانگ مارچ کے لئے فنڈر کا بندوبست کرنے پر وقت درکار ہوگا، یوں حکومت کے پاس زیادہ سے زیادہ دو سے تین ماہ کا وقت ہے۔

اسی طرح عوام کا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو قبول کر لینا بھی حکومت کیلئے وقتی ریلیف کا باعث بنا ہے، مگر یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ اگر تین ماہ میں اتحادی حکومت کی کارکردگی تسلی بخش نہ ہوئی تو حکومت عوامی حمایت سے محروم ہو جائے گی، یہ بات ملحوظ خاطر رہنی چاہئے کہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عوامی غیظ و غضب کی بنیادی وجہ مہنگائی تھی، اگر اتحادی حکومت بھی اسی راستے پر چلنے لگی تو عوام اسے قبول نہ کریں گے۔ اس ضمن میں دیکھا جائے تو حکومت کے پاس وقت کم ہے اور کام زیادہ ہے، یہ طے ہے کہ قلیل مدت میں حکومت کوئی میگا پروجیکٹ شروع نہیں کر سکتی ہے، اس کی ساری توجہ آئی ایم ایف اور دوست ممالک سے مالی تعاون کے حصول پر مرکوز ہے۔

اتحادی حکومت کے اہم رہنما شہباز شریف، مولانا فضل الرحمان ، بلاول بھٹو اور مریم نواز ایک ساتھ

قسمت نے یاوری کی تو عالمی معیشت کے حالات بہتر ہونے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی واقع ہونے سے حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے، جس طرح 2013ء کے الیکشن کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ترین سطح پر آ گئی تھیں تو نواز شریف نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا دیا تھا، معاشی ماہرین کا خیال ہے کہ اس وقت عالمی مارکیٹ بلند ترین سطح پر کھڑی ہے اس نے نیچے آنا ہے آج آئے یا کل آئے۔ حکومت امید لگائے بیٹھی ہے کہ اگلے چھ ماہ میں عالمی مارکیٹ کی صورتحال بہتر ہو جائے گی جس کا فائدہ عوام کو پہنچایا جائے گا، دوسری صورت مزید خرابی کی ہو سکتی ہے یہ امکانی صورت ملک، عوام اور اتحادی جماعتوں کیلئے خطرے کی گھنٹی ہو گی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button