فنِ خطاطی میں مسلمانوں کی امتیازی شان
ابن خلدون نے لکھا ہے کہ کتابت انسانی خواص میں سے ہے۔ اس سے انسان جانوروں سے ممتاز ہوتا ہے۔ عرب میں یہ فن تُبَّعْ کی طرف سے آیا۔ جو یمن کی نہایت ترقی یافتہ قوم تھی، اس زمانے میں اس فن کا نام دکا حمیری تھا۔ وہاں سے یہ اہلِ حیرہ تک پہنچا اور حیرہ سے اہلِ طائف اور قریش میں آ گیا۔ حیرہ سے یہ فن مصر میں پہنچا۔ پھر اہل اندلس نے اس میںکمال پیدا کیا اور اس کا خط عرب اور افریقہ میں احسن الخطوط مانا گیا۔
فن خطاطی میں مسلمانوں نے بڑا عروج حاصل کیا اور اس کی کئی اقسام وضع کیں مثلاً خطِ کوفی، خطِ نسخ، خطِ ریحانی، خطِ دیوانی، خطِ شکستہ، خطِ فارسی، خط نستعلیق، خطِ طغریٰ، خطِ گلزار، خطِ غبار اور خطِ رقعیٰ وغیرہ۔
پھر فن کتابت میں زودنویسی اور باریک نویسی بھی ایک فن کا درجہ پا گئی، چنانچہ…
٭اسماعیل بن عبداللہ ناسخ کے نام پر خطِ نسخ مشہور ہوا۔ یہ خطِ غبار میں ماہر تھے اور انہیں باریک نویسی میں بھی کمال حاصل تھا… یہ سورۃ اخلاص ایک چاول پر لکھ لیا کرتے تھے، ایک مرتبہ آیت الکرسی ایک چاول پر لکھی۔ 788ہجری میں ان کا انتقال ہوا۔
٭ حسن بن شہاب عسکری زود نویس کاتب تھے۔ وہ تین راتوں میں عرب ادب کی مشہور کتاب دیوان متنبی لکھ لیا کرتے تھے۔ 428ہجری میں انکا انتقال ہوا۔
٭ شیخ علی متقی ہندی برہان پوری نے علامہ سیوطی کی جمع الجوامع کو ابوابِ فقہیہ میں مرتب کیا۔ شیخ علی متقی نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ایک کاغذکا صفحہ عبدالوہاب شعرانی کو ہدیہ پیش کیا، اس صفحے پر پورا قرآن مجید لکھا ہوا تھا۔ ہر سطر میں چوتھائی پارہ لکھاگیا۔ آپ نے 75ہجری میں انتقال فرمایا۔
٭علامہ ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ خراسانی کاغذ کے ایک صفحے پر 640سطریں لکھا کرتے تھے۔
٭ بعض سلف صالحین اپنی لڑکیوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرتے، پھر ہر لڑکی اپنے ہاتھ سے انتہائی خوبصورت لکھائی میں قرآن مجید لکھتی۔ اس کو سنہری جلد میں مجلد کر دیا جاتا اور جب اس لڑکی کی شادی ہوتی تو جہیز میں یہی قرآن مجید دیا جاتا۔