وسائل کی کمی کی تلافی کیسے کریں؟
قیصر ولیم دوم (Friedrich William II) 1888ء سے لے کر 1918ء تک جرمنی کا بادشاہ تھا۔ اس کا بایاں بازو پیدائشی طور پر ناقص اور چھوٹا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے غیر معتدل مزاج کا سبب اس کا یہی عضویاتی نقص تھا۔
قیصر ولیم ہی کی غیر مدبرانہ سیاست کے نتیجہ میں پہلی جنگ عظیم (1914-1918) چھڑی۔ اس میں ایک طرف جرمنی اور اس کے ساتھی تھے اور دوسری طرف برطانیہ اور اس کے ساتھی۔ آخرکار جرمنی کو شکست ہوئی۔ اس کے ساتھ ہی قیصرولیم کی حکومت بھی ختم ہو گئی۔ قید یا قتل سے بچنے کے لیے اس نے اپنا ملک چھوڑ دیا۔ وہ نیدرلینڈ چلا گیا۔ وہ دوم (Doom) میں خاموشی سے زندگی کے بقیہ دن گزارتا رہا۔ یہاں تک کہ 4جون 1941ء کو 82 سال کی عمر میں مر گیا۔
پہلی جنگ عظیم سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے۔ قیصر ولیم ایک سرکاری دورے پر سوئٹزر لینڈ گیا۔ وہ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا کہ سوئٹز لینڈ اگرچہ چھوٹا ملک ہے مگر اس کی فوج بہت منظم ہے۔ اس نے ملاقات کے دوران سوئٹزر لینڈ کے ایک فوجی سے مزاحیہ انداز میں کہا کہ جرمنی کی زبردست فوج جس کی تعداد تمہاری فوج سے دگنی ہے، اگر تمہارے ملک پرحملہ کر دے تو تم کیا کرو گے؟ اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا:
سر ! ہمیں ایک کے بجائے دو فائر کرنا پڑیں گے۔
سوئس فوجی کا یہ چھوٹا ساجملہ ایک بہت بڑی حقیقت کا اعلان ہے… وسائل اگر کم ہوں تو کارکردگی کی زیادتی سے آپ اس کی تلافی کر سکتے ہیں۔ آپ کی تعداد اگر فریق ثانی کی تعداد کا نصف ہے تو آپ دگنی محنت کا ثبوت دے کر زندگی کے میدان میں اس کے برابر ہو سکتے ہیں۔
زندگی کی جدوجہد میں کبھی کوئی آگے بڑھ جاتا ہے، کوئی پیچھے رہ جاتا ہے۔ کوئی غالب ہوجاتا ہے اور کوئی مغلوب۔ مگر اس دنیا کے امکانات اتنے زیادہ ہیں کہ کبھی کسی کے لیے حد نہیں آتی۔ یہاں ہر بچھڑے ہوئے کے لیے دوبارہ آگے بڑھنے کا امکان ہے۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آدمی زیادہ بڑی مقدار میں عمل کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔