حسن و جمال کی پیکر دلہن کیلئے دولہا کا انتخاب
نوح بن مریم ’’مرو‘‘ کے رئیس اور قاضی تھے جو بہت ناز و نعم کا مالک تھا۔ اس کی ایک بیٹی تھی، جو یکتائے حسن و جمال اور بانشاط و باکمال تھی۔ ’’مرو‘‘ کے بڑے بڑے رؤسا اور اصحابِ ثروت نے نکاح کے پیغام بھیجے، لیکن رئیس نے کسی کو ہاں نہ کی۔ وہ حیران تھا کہ کس کو رشتہ دے؟ اگر فلاں سے نکاح کروں تو فلاح ناراض ہو جائے گا۔ وہ یہی سوچتا رہا۔
اس کا ایک ہندی غلام تھا، جس کا نام مبارک تھا۔ نوح کا ایک پھلوں پھولوں سے لدا گھنا باغ تھا۔ ایک دن غلام سے کہا: تم جاؤ اور باغ کی نگہداشت کرو۔ وہ چلا گیا اور دو ماہ باغ میں رہا۔ ایک دن مالک باغ میں آیا اور کہا: مبارک! انگور کا گچھا لاؤ۔ غلام نے انگور پکڑایا تو وہ ترش تھا۔ آقا نے کہا: اور لاؤ، اس نے ایک اور ترش گچھا پکڑا دیا۔ آقا نے کہا: کیا وجہ ہے کہ اتنے بڑے باغ میں تمہیں ترش ہی ملتا ہے؟ کہا: کیونکہ مجھے میٹھے اور ترش کی پہچان نہیں ہے۔ آقا نے کہا: سبحان اللہ! دو ماہ سے باغ میں رہ رہے ہو، تمہیں میٹھے اور ترش کا پتا نہیں ہے؟ کہا: اللہ کی قسم! میں نے کبھی نہیں چکھا۔
لہٰذا میٹھے اور ترش کی پہچان نہیں رکھتا۔ کہا: تم نے کیوں نہیں کھایا؟ کہا: کیونکہ آپ نے میری ڈیوٹی باغ کی نگہداشت پر لگائی تھی نہ کہ کھانے پر۔ میں آپ کی خیانت نہیں کر سکتا تھا۔
قاضی نے اس پر تعجب کیا اور کہا: اللہ تیرے لیے امانت کو محفوظ رکھے۔ قاضی جان گیا کہ غلام بہت ذہین و فطین ہے۔ چنانچہ بولا: اے غلام :تیرے حوالے سے میرے دل میں بہت چاہت نے انگڑائی لی ہے۔ میں جو کہوں گا امید ہے کہ تم کرو گے۔ غلام نے کہا: میں اللہ کا اطاعت گزار ہوں، پھر آپ کا۔ قاضی نے کہا: میری ایک خوبصورت لخت جگر ہے، بہت زیادہ رئیس اور اصحابِ ثروت اس سے نکاح کے خواہش مند ہیں، مجھے نہیں معلوم کہ کس سے شادی کروں، تم مشورہ دو کیا کرنا چاہیے؟ غلا م نے کہا : جان لیجئے کہ:
۱۔ لوگ دورِ جاہلیت میں حسب و نسب اور خاندان کو ترجیح دیتے تھے۔
۲۔ یہود و نصاریٰ حسن و جمال کے شیدا تھے۔
۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں دین و تقویٰ نکاح کا معیار سمجھا جاتا تھا۔
۴۔ آج کے لوگ مال کو دیکھتے ہیں۔
اب آپ ان چار چیزوں میں جو چاہیں اختیار فرما لیں۔ قاضی نے کہا: میں نے دین و تقویٰ کو اختیار کر لیا ہے اور چاہتا ہوں کہ اپنی بیٹی کی شادی تمہارے ساتھ کر دوں، کیوں کہ میں نے تمہارے اندر دین و خیر خواہی پائی ہے اور تقویٰ و امانت کا تجربہ کیا ہے ۔
غلام نے کہا: اے آقا! میں ایک غلام ہوں، آپ نے مجھے اپنے مال سے خریدا، اب آپ اپنی بیٹی سے میری شادی کیسے کر رہے ہیں اور میرا انتخاب ہی کیوں کر رہے ہیں؟ قاضی نے کہا: ہمارے ساتھ گھر چلو، وہیں سوچ بچار کرتے ہیں۔ جب وہ گھر پہنچے تو قاضی نے اپنی بیوی سے کہا: یہ ہندی غلام بڑا دین پسند اور متقی ہے، میں اس کی خیر خواہی چاہتا ہوں اور اپنی بیٹی کا نکاح اس کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں۔ تم کیا چاہتی ہو؟
اس نے کہا: معاملہ آپ کے سپرد ہے، لیکن میں جاتی ہوں اور بیٹی کو بتلاتی ہوں اور اس کا جواب آپ کو سناتی ہوں۔ ماں بیٹی کے پاس گئی اور باپ کا پیغام پہنچایا، تو وہ گویا ہوئی: آپ جو حکم دیں گے، میں کر گزروں گی، اللہ تعالیٰ اور آپ دونوں کے حکم سے باہر نہیں نکلوں گی، نیز آپ کی مخالفت کر کے نافرمانی کا ارتکاب نہیں کروں گی۔
چنانچہ قاضی نے اپنی بیٹی کا نکاح مبارک سے کر دیا اور انہیں بہت زیادہ مال و دولت سے نوازا۔ اس مبارک شادی کا ثمرہ عبداللہ بن مبارک تھے، جو صاحب علم و زہد و راوی حدیث تھے۔ جب تک دنیا باقی رہے گی، حدیث ان کی سند سے بیان کی جاتی رہیں گی۔