بہت ہو گیا، خدارا! اب بس کیجیے
جب کسی قوم کی اجتماعی دانش بے مصرف نعروں، غور و فکر کے سوتے اشتعال انگیزی، دل و دماغ شخصیت پرستی اور سوچ و بچار کے زاویے جذباتیت کے آشوب میں مبتلا ہو جائیں، تو پھر ایسے نقشے ابھرنے میں دیر نہیں لگتی، جیسے آج کل لوحِ وطن پر نمودار ہو رہے ہیں۔ ہمیشہ سے ملک کی ریت و روایت بنتے اعصاب شکن چیلنجز، منہ زور سیاسی انقلابوں اور تند و تیز عسکری سیلابوں کے باوصف پاکستان نے ایسے معاشی و سیاسی بحران کبھی نہیں دیکھے، جیسے آج کل درپیش ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اب کی بار ہم بحیثیت قوم عدم برداشت، اخلاقی گراوٹ اور احساس زیاں کے فقدان کی جن حدوں کو چھو رہے ہیں، اس پر مستزاد۔ فیا اسفا! اس منظرنامے میں جو کمی و کسر رہ گئی تھی، اس کی تلافی نگہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پرسوز جیسے اوصاف سے عاری "قافلہ” نے پوری کر دی۔
ظلمتِ شب کی چادر میں لپٹے وحشت ناک جنگل میں بکریوں اور بھیڑوں کے ریوڑ پر درندوں کے حملہ کی صورت میں بھی وہ افراتفری، بھگدڑ اور بے یقینی پیدا نہیں ہوتی، جو اس وقت سیاسی قائدین کی نااہلی سے پاکستان کے عوام کا مقدر بنی ہوئی ہے۔ اس گماں آباد ہستی میں بہت سوں کو نہ منزل کا پتا ہے نہ ہی نشان منزل معلوم۔ راستے کی خبر ہے نہ ہی قندیلِ راہ بانی میسر۔ اس مردم خیز ملک میں تو فوجی عہدِ حکمرانی میں بھی سیاسی قیادت کا فقدان نہیں رہا، اب تو قیادت کی پیداوار کے لئے رُت نہایت ہی مہرباں اور موسم انتہائی سازگار ہے۔
جمہوری تسلسل کے اس گزرتے دور میں مردم شماری کی جائے، تو متوسط و اعلیٰ سیاسی قائدین کی تعداد نہایت ہی حوصلہ افزا ہے۔ لگ بھگ سو کے قریب سیاسی جماعتوں کے ذمہ داروں کے ناموں کے شروع میں "مرکزی رہنما” کے سابقے لگتے ہیں، لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شد
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
نہ عشق میں گرمیاں ہیں نہ ہی حسن میں شوخیاں
نہ غزنوی میں تڑپ باقی رہی نہ ہی زلفِ ایاز میں خم
لمحۂ فکریہ ہے کہ عوامی جذبات سرد کرنے کی بجائے برانگیختہ کرنے اور ارادت مندوں کا غیظ و غضب فرو کرنے کی بجائے اشتعال دلانے میں سیاسی لیڈروں نے ہمہ قسم "بے سروپا بیانیوں” کا سہارا لینے سے بھی دریغ نہیں کیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر اخلاق باختگی کی ہر حد عبور کرنے کے بعد اب ملک کا طول و عرض میدان جنگ کی تصویر پیش کر رہا ہے، جس کا سدباب اب ان رہنماؤں کے لیے ناممکن نہ سہی، مشکل ضرور ہے۔ خدا معلوم آتش و آہن کے مدار میں داخل ہوتے اس مکروہ کھیل کو ختم کرتے کرتے ہمارا کتنا قیمتی اثاثہ اور سرمایہ لٹ جائے۔ یوں ایسے پُر آشوب عالم میں لمحوں کی خطا کی تلافی صدیوں کی سزا سے بھی نہ ہو پائے۔
تاریخ کے تناظر میں ذرا ملاحظہ کیجئے۔ پہلا منظر: مصری صدر انور سادات قتل ہو گئے، قاتل کو گرفتار کر کے عدالت میں پیش کر دیا گیا، جج نے مصری صدر کے قاتل سے پوچھا "تم نے سادات کو کیوں قتل کیا”؟ ملزم نے جواب دیا "کیونکہ سادات سیکولر تھا”۔ جج نے پوچھا کہ "آپ کو معلوم ہے سیکولر کیا ہوتا ہے”؟ تب قاتل کا جواب تھا "مجھے نہیں معلوم”۔
دوسرا منظر: مشہور مصری ادیب نجیب محفوظ پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزم کو گرفتار کر لیا گیا، بعد ازاں دوران تفتیش اس سے سوال ہوا "تم نے نجیب پر قاتلانہ حملہ کیوں کیا”؟ جواب آیا "کیونکہ وہ ایک دہشت گرد تھا”۔ پوچھا گیا "آپ نے نجیب کو کیسے دہشتگرد باور کر لیا”؟ ملزم نے جواب دیا "کیونکہ اس نے دہشت گردی کو فروغ دیتی ایک کتاب لکھی ہے”۔ پھر سوال ہوا کہ "کیا آپ نے وہ کتاب پڑھی ہے”؟ ملزم کا جواب تھا "نہیں”۔
تیسرا منظر: مشہور لکھاری فرج فودہ کو مارنے والے شخص سے پوچھا گیا "فرج کو قتل کرنے کی کیا وجہ ہے”؟ قاتل بولا "کیوں کہ وہ کافر تھا”۔ سوال ہوا "تمہیں کیسے پتا چلا کہ وہ کافر ہے”؟ قاتل کا جواب تھا "مجھے اس کی کفریہ نظریات والی کتابوں سے پتہ چلا کہ وہ کافر ہے”۔ پھر سوال ہوا "اس کی کس کتاب سے تجھے اس کے کفر کا پتہ چلا”؟ تو اس نے جواب دیا "میں نے اس کی کوئی کتاب نہیں پڑھی”۔
اس وقت یہی حال حقائق کا ادراک نہ رکھنے والی پاکستانی قوم کا ہے۔ قومی و اجتماعی زندگی میں ہمارا کردار ان چیونٹیوں سے قطعاً مختلف نہیں، جو منزل اور انجام سے بے خبر ہو کر ساری کی ساری کسی ایک چیونٹی کے پیچھے قطار بنا کر چل نکلتی ہیں۔ اتنا ضرور ہے کہ پاکستان میں ابھی تک مصر جیسی نوع کے ہولناک مناظر سامنے نہیں آئے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہم جن راستوں پر چل پڑے ہیں، ان پر ایسے ہی المیے جنم لیتے ہیں۔
یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ سیاسی جماعتیں جلسے جلوسوں، احتجاجوں، مظاہروں اور نعروں کے بل پر ہی زندہ رہتی ہیں اور کارکنوں کا خون گرم رکھنے سے ہی ووٹ بینک محفوظ بنایا جا سکتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک میں دو ماہ سے جو کچھ سیاست کے نام پر ہو رہا ہے، اس طرح کے بے لگام رویے، غیر محتاط انداز سیاست اور انتقام کے شعلے بہت کچھ بھسم کر دینے کا پیش خیمہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔
لہٰذا سیاسی قائدین کی بالغ نظری اور فہم و دانش کا تقاضا ہے کہ اس وقت ملک کی سالمیت، جمہوری تسلسل اور عوام کی جان مال اور آبرو کا تحفظ یقینی بنانا اپنی جماعت کو زندہ رکھنے سے زیادہ اہم ہے۔ لہٰذا بہت ہوگیا، خدارا! اب بس کیجیے، ورنہ تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔