عمران خان اور حکومت کے درمیان کیا ڈیل ہوئی؟
عمران خان اسلام آباد آئے اور واپس چلے گئے، انہیں اس ساری پریکٹس سے کیا حاصل ہوا، یہ تو وہی جانتے ہیں کہ انہیں کیا یقین دہانی کرائی گئی ہے، البتہ خوش آئند بات یہ ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف باہم مل بیٹھنے پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ میرے نزدیک حالات جیسے بھی خراب کیوں نہ ہوں مذاکرات کے دروازے بند نہیں کرنے چاہئے، تحریک انصاف نے مگر یہ تاثر دیا تھا کہ وہ اس قدر مقبول جماعت بن چکی ہے کہ اسے کسی کے ساتھ بات چیت کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ لانگ مارچ کے بعد مقبولیت کے اس غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔
عمران خان کو توقع تھی کہ ترکی کے صدر طیب ایردوان کے کہنے پر جس طرح ترکی کے لوگ فوج کے خلاف نکلے تھے ویسے ہی پاکستان میں بھی ان کی حمایت میں لوگ نکلیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا، وہ لاکھ کہیں کہ حکومت نے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں اور پکڑ دھکڑ کے ڈر سے کارکن نہیں نکلے تو عرض ہے کہ جب تبدیلی کے حالات پیدا ہوتے ہیں تو کارکن تمام رکاوٹیں عبور کر کے بھی اپنے قائد کی آواز پر پہنچتے ہیں۔ دس لاکھ لانے کا دعویٰ تھا اگر پانچ لاکھ افراد بھی اسلام آباد آ جاتے تو حکومت کے پاس اقتدار پر رہنے کا جواز ختم ہو جاتا۔
جب عمران خان نے اسلام میں خطاب میں حکومت کو 6 دن کی مہلت دی کہ اس دوران اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے الیکشن کا اعلان کیا جائے تو وہ کارکن جو گزشتہ دو تین دنوں سے لانگ مارچ کا حصہ تھے وہ حیرت زدہ رہ گئے۔ کئی کارکنان تو لانگ مارچ ختم ہونے کے بعد بھی اسلام آباد میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
ہم نے کل لکھا کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں تو کئی انصافیوں نے عمران خان کا ٹوئیٹ شیئر کیا کہ ایسا نہیں ہے اب حالات اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ اندرون خانہ معاملات طے پا گئے ہیں جو کارکنان کو نہیں بتائے جا رہے۔
اب جبکہ حکومت اور تحریک انصاف مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کیلئے تیار ہو گئے ہیں تو امید ہے کہ ملک و قوم کے مفاد کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جائے گا۔ اس وقت ملکی معیشت بحران کی زد میں ہے، سیاسی جماعتیں اگر واقعی ملک کی خیر ہیں تو انہیں سب سے پہلے معیشت کو بحران سے باہر نکالنے کا منصوبہ پیش کرنا چاہئے۔