سیاسی انتہا پسندی کے پشت پناہ

انتہا پسندوں کی پشت پناہی نہ کی جائے تو سیاسی و مذہبی انتہا پسندی پنپ نہیں سکتی، سیاست میں نفرت کے جو بیج بو دیئے گئے ہیں اس کا خاتمہ الیکشن کے ذریعے ہی ممکن ہے اس مقصد کیلئے تین سے چار الیکشن کی ضرورت ہوگی، وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض حسین پیرزادہ

پاکستان کی سیاست میں ایک منصوبے تحت انتہا پسندی کو فروغ دیا گیا ہے جس طرح چند برس پہلے مذہبی جماعتوں میں انتہا پسندی کے بیج بوئے گئے تھے، اور قوم نے اس کے بھیانک نتائج اٹھائے تھے بالکل اسی طرح اب قوم کو سیاسی انتہا پسندی کا سامنا ہے، یہ انتہا پسندی اب نفرت میں تبدیل ہو چکی ہے، سیاسی جماعتوں کے قائدین اور کارکنان ایک دوسرے کے خلاف جو زبان استعمال کر رہے ہیں یہ رویہ سماجی ڈھانچے کو تباہ کرنے کیلئے زہر قاتل ہے۔ اہل سیاست نے جلد اس کا حل نہ نکالا تو رہی سہی سماجی اقدار بھی ختم ہو جائیں گی۔ تمام جمہوری ممالک میں اختلاف رائے اور احتجاج کو جمہوریت کا حسن سمجھا جاتا ہے کیونکہ مثبت تنقید سے آگے بڑھا جا سکتا ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں اختلاف رائے کو دشمنی سے تعبیر کر لیا گیا ہے بلکہ لوگوں سے بولنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔

سیاست میں بڑھتی انتہا پسندی سے متعلق ہم نے وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ریاض حسین پیرزادہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ نفرتوں کے جو بیج بو دیئے گئے ہیں اسے ختم کرنے کا واحد راستہ جمہوریت کا تسلسل ہے، تین سے چار الیکشن بروقت ہوں گے تبھی انتہا پسندی کو ختم کیا جا سکے گا۔ انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ سیاستدانوں کو کبھی بھی انتہا پر نہیں جانا چاہئے نہ ہی انہیں مخالفین کیلئے دروازے بند کرنے چاہئے۔ انہوں نے عمران خان کی بات کرتے ہوئے کہا جب عمران خان وزیر اعظم تھے تو تب بھی انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کیا تھا اب تو وہ باقاعدہ احتجاج کا راستہ اختیار کر چکے ہیں، سو اتنی دوریاں ہرگز پیدا نہیں کرنی چاہئے کہ بات چیت کے راستے بند ہو جائیں۔

انٹرویو دیتے ہوئے وفاقی وزیر ریاض حسین پیر زادہ کا ایک انداز

وزیراعظم شہباز شریف اور اتحادی جماعتوں کی مخلوط حکومت کی مشکلات پر ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کو تمام سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہونا ان کی اہم کامیابی ہے، مولانا فضل الرحمان، آصف علی زردای جیسے زیرک سیاستدان کوشش کر رہے ہیں کہ ملک کو معاشی بحران سے باہر نکالا جائے۔ ریاض حسین پیر زادہ نے کہا کہ اگر مقتدر قوتوں کی جانب سے یہ پیغام آ جائے کہ موجودہ حکومت اپنا ٹنیور پورا کرے گی تو ہر ملک ہمارے ساتھ تعاون کیلئے تیار ہو گا، چونکہ اس وقت گو مگو کی صورتحال ہے تو فرینڈز ممالک بھی مالی تعاون کیلئے تیار نہیں ہیں۔ آگے بڑھنے کیلئے ضروری ہے کہ ملک میں دو حکومتوں کے تاثر کو ختم کیا جائے۔

ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ جب سے سیاست میں پیسے کی ریل پیل شروع ہوئی ہے تب سے سیاسی اقدار ختم ہونے لگی ہیں، جن کا برسوں سے اچھا خاصا خاندانی ووٹ بینک تھا وہ بھی پریشان ہیں کیونکہ ان کے پاس اس قدر وسائل نہیں ہیں جبکہ اس کے برعکس سیاست میں نووارد جس نے ساری زندگی ملک سے باہر گزاری ہوتی ہے وہ پانی کی طرح پیسے کا استعمال کر کے ووٹوں کو خریدنا شروع کر دیتا ہے، سیاسی اقدار کو بچانا ہے تو پیسے کے استعمال کو روکنا ہو گا۔

ریاض حسین پیرزادہ نے کہا کہ سیاست میں جو جنریشن گیپ آ چکا ہے اسے ختم کرنا آسان نہیں ہے اب نوجوان سیاسی اقدار سے بالا ہو کر بات کرنے کو جمہوری حق سمجھتے ہیں مگر اس جمہوری حق سے بدکلامی کا کلچر فروغ پا رہا ہے، عمران خان جنریشن گیپ کے نتیجے میں تیار ہونے والی نوجوانوں کی کھیپ کو اپنا ووٹ بینک سمجھتے ہیں سو اندازہ یہی ہے کہ ہمیں اگلی دو دہائیوں تک سیاسی انتہا پسندی کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جو سیاسی جماعتیں اپنی اقدار پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار نہ تھیں اب وہ اپنے دفاع میں میدان میں نکل پڑی ہیں اور ہر بات کا ترکی بہ ترکی جواب دیا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ کان کھول کر سن لیں الیکشن کا فیصلہ اتحادی جماعتیں کریں گی۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ اگر اتحادی حکومت نے مارچ کی اجازت نہ دی تو کسی کو گھر سے نہیں نکلنے دیں گے۔ وزیر داخلہ نے واضح الفاظ میں پیغام دیا ہے کہ گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں گی۔ حکومت کی اہم اتحادی جماعت پیپلزپارٹی نے مشورہ دیا ہے کہ لانگ مارچ کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جائیں۔ ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ جون کی کڑکتی دھوپ میں لانگ مارچ کرنا آسان نہ ہوگا۔

جلسوں کا لانگ مارچ سے موازنہ کرنے والے حقائق کو درست طور پر پرکھ نہیں رہے ہیں۔ جس شہر میں جلسہ ہوتا ہے وہاں پر اکثریت مقامی لوگوں کی ہوتی ہے، بالخصوص جب جلسہ کی ٹائمنگ شام کے وقت رکھی جائے تو بہت سے لوگ شوقیہ طور پر جلسے میں شرکت کیلئے پہنچ جاتے ہیں جبکہ لانگ مارچ میں وہی لوگ شریک ہوں گے جو پارٹی سے وابستہ ہوں گے اور موسم کی مشقت برداشت کرنے کی ہمت رکھتے ہوں گے۔

لانگ مارچ عموماً کئی دنوں پر مشتمل ہوتا ہے گرمی کے اس موسم میں بہت سے لوگ شریک نہ ہو سکیں، یوں لانگ مارچ میں بڑی تعداد شرکت نہیں کر سکے گی، اسی طرح دھرنا دینا بھی آسان نہیں ہو گا، توقع ہے جس طرح 2014ء میں تحریک انصاف کا آزادی مارچ ہوا تھا، اسی طرح کا لانگ مارچ ہو گا جس میں ابتدائی طور پر ہزاروں لوگ شریک تھے مگر اگلے ہی دن تعداد آدھی بھی نہیں تھی۔ دھرنے کے آخری دنوں میں تو خالی کینٹینر پر کھڑے ہو کر عمران خان کو تقریر کرتے دیکھا گیا تھا۔ اس پس منظر کے بعد دیکھا جائے تو اتحادی حکومت کی یہ منصوبہ ہو سکتی ہے کہ عمران خان کو تھکا کر واپس کر دیا جائے اور واپسی کے بعد اسمبلی اپنی مدت پوری کرے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button