نفرتوں کے بیوپاری چاشنی کا لُطف کیا جانیں؟

معاشرے میں عدم برداشت کا رحجان تیزی سے بڑھا ہے مجموعی طور پر ہمارے رویوں کا جھکاؤ منفی پہلوؤں کی طرف ہے لوگ معمولی اختلافات پر ایک دوسرے کی عزت اور جان کے درپے ہو جاتے ہیں۔ خصوصاً سیاسی اور مذہبی اختلافات کو ہوا دی جاتی ہے پہلے ہم سنتے تھے کہ کسی شہر میں ذاتی اور نجی اختلاف کی وجہ سے لڑائی تک بات پہنچ گئی لیکن اب ذاتی کم سیاسی اختلافات کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے اختلاف رائے بری بات نہیں ہے لیکن اختلاف رائے پر اپنا مؤقف اپنے دوست پر مسلط کرنے کی کوشش کرنا، اپنے مسلمان بھائی کو نیچا دکھانے کے لیے محافل میں طنز کے تیر چلانا، طعنہ زنی کرنا، برے القابات سے پکارنا یہ سب ایسے عوامل ہیں کہ اس سے آپ اپنی ذات کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں۔

آپ ایک چھوٹی سی کوشش کر کے دیکھ لیں کہ جب آپ کسی ایسے ماحول میں آپ موجود ہوں جہاں یہ سب چل رہا ہو جو آپ کی برداشت کی حد توڑنے والا ہو وہاں آپ تھوڑی دیر کے لیے ایک ٹھنڈی سانس لیں اور سخت لہجے میں جواب دینے کی بجائے انتہائی نرمی سے اپنی بات کا آغاز کریں، اپنی باتوں میں ایسی خوشبو پیدا کریں جو آپ کے جانے کے بعد میں محسوس ہو کہ کتنی پیاری باتیں کی ہیں آپ کی گفتگو کی چاشنی ایسی ہو کہ اختلاف رائے کو جھگڑے کی طرف لے جانے والی باتیں محبت میں بدل جائیں۔

لوگوں کے ساتھ رہنے سہنے اور ملنے جلنے کی تحسین بیان کرتے ہوئے سرورِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، جو مسلمان عام لوگوں سے میل جول رکھے اور ان کی طرف سے ہونے والی تکلیف دہ باتوں پر صبر اختیار کرے تو یہ ایسے مسلمان سے بہتر اور افضل ہے جو الگ تھلگ رہ کر زندگی بسر کرے اور لوگوں کی تکالیف پر صبر اختیار نہ کرے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث ۲۵۰۷) پھر اسی معاشرتی اور تمدنی زندگی کے گزارنے کے سنہرے اصول کے طور پر ارشاد فرمایا: لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آؤ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث ۲۹۸)

دوسری جگہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: اپنے مسلمان بھائی کے سامنے تمہارا خندہ روئی سے پیش آنا تمہارے لیے صدقہ ہے۔(سنن ترمذی) ایک مسلمان احادیث مبارکہ کو زندگی میں بہت اہمیت دیتا ہے اور پورا پورا عمل کرنے کی بھی کوشش کرتا ہے جس طرح عرب میں نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم نے اعلیٰ اخلاق، برداشت، رواداری کے ذریعے ایک پُر امن معاشرے کی تشکیل نو کی آج ہم بھی اسی طرح سنت نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم پر عمل پیرا ہوتے ہیں اپنے معاشرے کو ایک خوبصورت چمن بنا سکتے ہیں۔

معاشرے میں اس کی ذمہ داری سب سے زیادہ لیڈرز کی ہوتی ہے آج کے دور میں ہمارے لیڈرز، سیاستدان آپس میں بیٹھنے کو تیار نہیں حالانکہ کہ سیاسی اختلاف تو صرف اختلاف رائے کی حد تک رہنا چاہیے نہ کہ دشمنیوں میں بدل جائے آج مثالیں تو سلطان ٹیپو کی دی جاتی ہیں لیکن یاد رکھیں! سلطان ٹیپو ایک وطن پرور اور اسلام نواز بادشاہ تھا مگر اس کے عہد میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے ہندوؤں، برہمنوں اور غیرمسلموں کو بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا اور انہیں اعزاز بخشا۔

ٹیپوسلطان کا وزیراعظم ایک برہمن تھا جن کا نام ”پونیا“ Punnayy تھا۔ اور ٹیپو کا فوجی سپہ سالار بھی ”کرشنا راؤ“ نامی برہمن تھا اور ٹیپو ایک سوچھپن (۱۵۶) مندروں کو سالانہ امداد دیا کرتا تھا۔ (مذہبی رواداری،۳/۳۱۷، اسلام امن وآشتی کا علمبردار،ص:۷۵) الغرض! اسلامی حکمرانی کی پوری تاریخ امن وامان اور رواداری کے واقعات سے لبریز ہے۔

دنیا کی کوئی تاریخ ایسی شاندار مثالیں پیش نہیں کرسکتی۔ آج ضرورت ہے کہ ہم اس سے سبق حاصل کریں اور ان خوبصورت نمونوں کو پیش نظر رکھ کر ایک خوبصورت سماج پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
اقبال نے کہا تھا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button