حقیقت کا اعتراف دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے

دوسری عالمی جنگ (1939-45ء) میں ابتداء میںامریکہ براہِ راست شامل نہ تھا۔ تاہم ہتھیار اور سامان کے ذریعے اس کی مدد برطانیہ اور اس کے ساتھیوں کی طاقت کا ذریعہ بنی ہوئی تھی۔ چنانچہ جاپان نے امریکہ کے خلاف ایک خفیہ منصوبہ بنایا۔ اس نے 7دسمبر 1941ء کو اچانک امریکہ کے بحری اڈہ پرل ہاربر (Pearl Harbour) پرشدید حملہ کر دیا اور اس کو تباہ کر دیا۔ تاہم امریکہ کی ہوائی طاقت بدستور برقرار رہی۔

یہ وہ وقت تھا جب کہ امریکہ میں ایٹم بم کی پہلی کھیپ زیرِ تکمیل تھی۔ چنانچہ اس کے مکمل ہوتے ہی امریکہ نے جاپان سے مطالبہ کیا کہ وہ غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دے ورنہ اس کو برباد کر دیا جائے گا۔ جاپان کو امریکہ کی جدید طاقت کا اندازہ نہ تھا، اس نے اس کو منظور نہیں کیا ۔ چنانچہ 14اگست 1945ء کو امریکہ نے جاپان کے دو صنعتی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گراے۔ ایک لمحہ میں جاپان کی فوجی طاقت تہس نہس ہو کر رہ گئی۔ جاپان نے مجبور ہو کر ہتھیار ڈالنے کا اعلان کر دیا۔

جاپان اگرچہ خالص ہتھیار کے اعتبار سے شکست کھا چکا تھا مگر جاپانیوں کے درمیان جنگی جنون بدستور باقی تھا۔ جاپانیوں کا جنگی جنون اس زمانہ میں اتنا بڑھا ہوا تھا کہ وہ اپنے جسم میں بم باندھ کر جہازوں کی چمنی میں کود جاتے تھے ۔ اب جنرل میکارتھر کے سامنے یہ سوال تھا کہ اس جنگی جنون کا خاتمہ کس طرح کیاجائے۔

جنرل میکارتھر نے اس کا حل اس تدبیر میں تلاش کیا کہ جاپانیوں کے جذبہ کو جنگ سے ہٹا کر معاشی سرگرمیوں کی طرف پھیر دیا جائے۔ ایک امریکی ممبر اینتھونی لیویس (Anthon Lewis)نے لکھا ہے:
’’جب جاپان نے 40سال پہلے ہتھیار ڈالے تو جنرل میکارتھر نے نہ صرف جاپان پر فوجی قبضہ کر لیا بلکہ اس کے ساتھ ان کی مہم یہ تھی کہ وہ ملک کی از سرِ نو تشکیل کریں۔ اگر اس وقت ان سے پوچھا جاتا کہ ان کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے تو میرا خیال ہے کہ وہ یہ کہتے کہ جاپان کے جارح عوام کے جوش کو جنگ کے بجائے اقتصادی حوصلوں کی طرف موڑ دینا۔‘‘

اب جاپان کے لیے ایک صورت یہ تھی کہ وہ اپنے ذہن کو باقی رکھتا۔ اگر کھلے طور پر میدانِ جنگ میں لڑنے کے مواقع نہیں تھے تو خفیہ طور پر امریکہ کے خلاف اپنی مقابلہ آرائی کو جاری رکھتا۔ آخری درجہ میں وہ اس کام کو کر سکتا تھا جس کا نمونہ ہندوستان کے مسلمانوں میں نظر آ رہا تھا۔ یعنی اپنے مفروضہ حریف کے خلاف الفاظ کی بے فائدہ جنگ جاری رکھنا۔

دنیا بھر کی مارکیٹوں میں جاپان کی معیاری مصنوعات کو اس کی ترقی کی وجہ قرار دیا جا رہا ہے

مگر جاپان نے فاتح کی پیش کش کو قبول کرتے ہوئے فوراً اپنے عمل کا رخ بدل دیا۔ اس نے امریکہ سے براہ راست ٹکراؤ کو مکمل طور پر ختم کر دیا اور اپنی تمام قوتوں کو سائنسی تعلیم اور ٹیکنیکل ترقی کے راستہ میں لگا دیا۔ اس کا نتیجہ عظیم الشان کامیابی کی شکل میں برآمد ہوا۔ جاپان نے تیزی سے اقتصادی ترقی شروع کی۔ اس نے 1971ء میں چھ بلین ڈالر کا تجارتی سامان امریکہ بھیجا تھا، اس کے بعد جاپانی مصنوعات کی مقبولیت امریکہ میں بڑھتی رہی یہاں تک کہ ایک اندازے کے مطابق 1985ء میں جاپان کے مقابلہ میں امریکہ کا تجارتی خسارہ (Trade deficit) 45بلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔

نیوز ویک (12اگست 1985ء) میں ایک رپورٹ بعنوان (Japan: The 40-year miracle)چھپی ہے۔ اس میں 1945ء میں جاپان کی کامل بربادی کے چالیس سال بعد اس کی غیر معمولی ترقی کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جاپانی قوم افسانوی پرندے کی طرح خود اپنی راکھ کے اندر سے اٹھ کھڑی ہوئی:
The nation rose like the mythical phoenix from its own ashes.
جاپان کو خود اپنے فاتح کے مقابلے میں کامیابی اس لیے حاصل ہوئی کہ اس نے اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا۔ حقیقت کا اعتراف ہی اس دنیا میں کامیابی کا واحد راز ہے۔ اگرچہ بہت سے نادان لوگ حقیقت کے انکار میں کامیابی کا راز تلاش کرتے ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button