نقل کلچر کا فروغ اور تعلیمی بورڈ کی ذمہ داری
ماہ رواں میں ملک کے اطراف و اکناف میں میٹرک کے سالانہ امتحانات کا سلسلہ شروع ہے۔ ہر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر بلکہ پسماندہ ملکوں میں بھی امتحانات کا انعقاد شعبۂ تعلیم کا ایک انتہائی اہم مرحلہ ہوتا ہے اور اس کے لیے غیر معمولی اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ یہی وہ مرحلہ ہے جس سے اساتذہ اور طلباء کی سالانہ کارکردگی کے غیر جانبدارانہ گوشوارے مرتب کیے جا سکتے ہیں اور ملک کے مستقبل کے حوالے سے واضح اشارے ظاہر ہوتے ہیں۔
لیکن شومی قسمت کہ ملک پاکستان میں یہ اہم مرحلہ بھی جس غیر معمولی اہمیت کے حامل اور جس نوع کے ٹھوس اقدامات کا متقاضی تھا، وہ رو بہ عمل ہوتے نظر نہیں آتے۔ تازہ صورتحال یہ ہے کہ ایک دو کے علاوہ ملک کے اکثر بورڈز وہ بندوبست اور اہتمام کرنے سے ہی قاصر ہیں، جو اس مرحلے کے لیے ناگزیر تھے۔ خصوصًا غیر محتاط رویے کی وجہ سے وقت سے پہلے ہی سوالیہ پرچے کا زیر امتحان طلبہ کے ہاتھ لگ جانا یا لگا دینا اور امتحان میں نقل کلچر کا فروغ پانا، ہمارے تعلیمی نظام کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔
اس سلسلے میں سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تعلیم جیسے مقدس علمی شعبہ سے وابستہ عاقبت نا اندیش نقل کلچر کے نقصانات سے آگاہ ہونے کے باوصف اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ گنگا انہی کے دم سے بہتی ہے۔ آئیے! نقل کلچر سے ہونے والے دنیاوی و اخروی نقصانات کا جائزہ لیتے ہیں۔
تعلیمی نظام کی تباہی
نقل کلچر کی وجہ سے سب سے پہلا جو نقصان ہوتا ہے وہ تعلیمی نظام اور اس کے معیار کی تباہی کی شکل میں ہوتا ہے۔ چونکہ اساتذہ و طلبہ کو معلوم ہوتا ہے کہ امتحانات میں نقل کے ذریعے مطلوبہ کامیابی ممکن ہے، تو ہر دو طبقے نقل کے بھروسے پر سال بھر سستی و کاہلی اور تن آسانی و غفلت کا شکار رہتے ہیں، جس سے تعلیمی نظام اور اس کا معیار بری طرح برباد ہو جاتا ہے۔
اخلاق کی بربادی
یہ ایک تجرباتی و مشاہداتی حقیقت ہے کہ بچوں کے لئے اگر کوئی صحیح معنوں میں رول ماڈل اور مثالی نمونہ بن سکتا ہے، تو وہ اساتذہ ہیں۔ بچے جب اپنے اساتذہ کو اس دھندے میں آلودہ ہوتا اور اس کی حوصلہ افزائی کرتا دیکھتے ہیں، تو ان کے اخلاق پر بھی انتہائی منفی تاثرات نقش ہو جاتے ہیں۔
ذہین و محنتی طلبہ کا استحصال
انصاف پسندی کا تقاضا ہے کہ ہر بچے کو اس کی سال بھر کی تعلیمی کارکردگی کا ثمرہ حاصل ہو۔ جن بچوں نے سال بھر محنت کی ہے، انہیں محنت کا صلہ، جبکہ نکمے اور بے پروا بچوں کو ان کی بے پروائی کا خمیازہ ملنا ہی قرین انصاف ہے۔ اگر نقل کلچر کے ذریعے نالائق اور نکمے بچے بھی نمایاں کامیابیاں سمیٹنے میں کامیاب ہونے لگیں، تو اس سے ذہین و محنتی طلبہ کی نہ صرف حوصلہ شکنی ہوتی ہے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ان کی حق تلفی بھی لازم آتی ہے۔
نااہل افراد کا اضافہ
نقل کلچر کا ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے، کہ طلبہ محنت و ریاضت سے دل چھوڑ بیٹھتے ہیں اور امتحان میں نقل کے بل پر کامیاب ٹھہرتے ہیں، جس کی وجہ سے حقیقی تعلیم سے روشناس ہونے کی بجائے محض سند و سرٹیفکیٹ کا حصول ہی مقصد اولیٰ خیال کرتے ہیں، جس سے معاشرے میں تعلیم یافتہ کی بجائے نااہل افراد کا اضافہ ہوتا ہے، جو کسی طور پر بھی ملک کے لیے نیک شگون نہیں۔
کرپشن اور ناحق سفارش کا فروغ
صرف مالی امور میں خورد برد ہی کرپشن نہیں، تعلیمی میدان میں نقل کلچر کا فروغ بھی تعلیمی کرپشن اور بدعنوانی کے زمرے میں آتا ہے نیز نقل کلچر سے اقربا پروری اور ناحق سفارش جیسے معاشرتی ناسور بھی جنم لیتے ہیں۔
بد دیانتی اور خیانت کا وبال
چند نمبرات حاصل کرنے کی خاطر نقل کو فروغ دینا صریح خیانت اور بددیانتی ہے اور یقینًا یہ ایک ایسا اخلاقی، قانونی اور شرعی جرم ہے، جس کی قیامت کے دن باز پرس ہوگی۔ چنانچہ قرآن و حدیث میں بددیانتی اور خیانت کی سخت اخروی سزائیں بیان کی گئی ہیں۔
گناہ کے کاموں میں تعاون
نقل کرنا اور کروانا ایک جرم اور گناہ ہے۔ جو لوگ اس جرم کے مرتکب ہیں، وہ گناہ کے کاموں میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار بن رہے ہیں، جبکہ سورۃ المائدہ میں گناہ اور ناانصافی کے کاموں میں باہمی تعاون سے واضح طور پر منع کیا گیا ہے۔ لہذا نقل کلچر کو فروغ دینے والے قرآن کے اس حکم کی صریح خلاف ورزی کر کے بروز قیامت عند اللّٰہ ماخوذ ہوں گے۔
بورڈز انتظامیہ، عصری اداروں کے سربراہان و اساتذہ اور طلبہ و والدین سے گزارش ہے کہ ملکی و قومی نقصانات اور دنیاوی و اخروی وبال کے پیش نظر نقل کی روک تھام اور سدباب کے لئے کردار ادا کیا جائے، تاکہ ہمارا تعلیمی نظام حقیقی معنوں میں ثمرآور ثابت ہو اور اللّٰہ تعالیٰ کے ہاں بھی سرخرو ٹھہریں۔