سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی دور اندیشی
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک عجیب و غریب مقدمہ عدالت فاروقی میں پیش ہوتا ہے۔ ایک انصاری نوجوان کہتا ہے کہ جناب! میں فلاں عورت کا بیٹا ہوں مگر وہ مجھے اپنا بیٹا ماننے سے انکاری ہے۔
سوال ہوا: تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟
جناب! میں اس کا ثبوت کیا پیش کر سکتا ہوں!
عورت سے پوچھا گیا: کیا معاملہ ہے؟
اس نے سرے سے انکار کیا کہ میری تو کبھی شادی ہی نہیں ہوئی ہے۔
ادھر عورت نے چند گواہوں کو بھی امیرالمومنین کی خدمت میں پیش کر دیا جنہوں نے یہ گواہی دی کہ اس عورت نے کبھی کسی سے شادی ہی نہیں کی ہے، پھر اس کا بچہ کہاں سے پیدا ہو گیا؟ یہ لڑکا جھوٹ بول کر خواہ مخواہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس عورت کا بیٹا ہے، یہ تو سراسر بہتان ہے۔
امیرالمومنین نے یہ ساری باتیں سن کر اس نوجوان پر حد جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسی دوران میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ وہاں آ گئے اور اس مقدمے کے بارے میں پوچھنے لگے۔ لوگوں نے ساری داستان بتا دی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس مقدمے سے متعلق سب لوگوں کو بلایا اور مسجد نبوی میں بیٹھ گئے۔ پھر عورت سے پوچھا: کیا یہ نوجوان تیرا بیٹا نہیں ہے؟
عورت نے جواب دیا: ہاں، یہ میرا بیٹا ہرگز نہیں ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نوجوان سے کہا: جوان! تم بھی ویسے ہی انکار کر دو کہ یہ عورت تمہاری ماں نہیں ہے، جیسا کہ اس نے تمہیں اپنا بیٹا ماننے سے انکار کر دیا ہے۔
نوجوان عرض کرنے لگا: اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے! یہ میں کیسے کہہ سکتا ہوں جب کہ میں خوب جانتا ہوں کہ یہ میری ماں ہے؟
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم اس عورت کو ماں کہنے سے انکار کر دو، میں آج سے تمہارا باپ اور میرے بیٹے حسن اور حسین تمہارے بھائی ہوں گے۔
نوجوان نے عرض کی: ہاں، میں اس عورت کو اب اپنی ماں ماننے سے انکار کرتا ہوں۔
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عورت کے اولیاء سے فرمایا:
’’کیا اس عورت کے بارے میں میری بات مانی جائے گی؟‘‘
اولیاء نے عرض کی: ہاں ہاں! کیوں نہیں۔ بلکہ ہمارے سلسلے میں بھی آپ جو حکم دیں گے ہم ماننے کو تیار ہیں۔
ان کی باتیں سننے کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ گویا ہوئے:
اے قنبر! (قنبر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے غلام کا نام تھا) ان حاضرین کے سامنے تم گواہ رہو کہ میں نے اس اجنبی خاتون کی شادی اس نوجوان سے کر دی۔ تم جا کر درہموں کی تھیلی لاؤ۔
قنبر گیا اور تھیلی لا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں رکھ دی۔ اس میں480چار سو اسی درہم تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عورت کو بطور مہر یہ درہم دیے اور نوجوان سے فرمایا:
’’اپنی بیوی کا ہاتھ پکڑو اور اس کے بعد ہمارے پاس اسی صورت میں حاضر ہونا جب کہ تمہارے اوپر عُرس (سہاگ رات) کے نشانات ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر جوں ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اٹھے، عورت کہنے لگی: اللہ اللہ، اے ابوالحسن! یہ نوجوان تو میرے حق میں جہنم کا ٹکڑا بن جائے گا۔ یہ تو اللہ کی قسم میرا بیٹا ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ کیونکر تمہارا بیٹا ہو سکتا ہے جب کہ تم نے ابھی کچھ ہی لمحے پہلے اسے اپنا بیٹا ماننے سے انکار کیا تھا اور ساتھ گواہوں کو بھی پیش کیا تھا؟
عورت کہنے لگی: دراصل بات یہ ہے کہ اس نوجوان کا باپ ایک حبشی تھا۔ میرے بھائیوں نے اس کے ساتھ میری شادی کر دی، اس سے مجھے حمل ٹھہر گیا۔ کچھ دنوں بعد اس کا باپ اللہ کی راہ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہو گیا۔ اس کے بعد جب میرا بچہ پیدا ہوا تو میں نے اسے فلاں قبیلے میں بھیج دیا۔ میرے اس بیٹے نے اسی قبیلے میں پرورش پائی، پھر میں نے اسے اپنا بیٹا ماننے سے انکار کر دیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ پوری داستان سن کر فرمایا:
میں ابوالحسن ہوں، میں کسی اور کا باپ کیونکر بن سکتا ہوں؟ پھر آپ نے اس نوجوان کو اس عورت کے ساتھ بھیج دیا اور اس کا نسب بھی اس عورت کے ساتھ ثابت کر دیا۔