خود کشی خدا سے کامل مایوسی کا نام ہے

پاکستان کے ریٹائرڈ جنرل عتیق الرحمن پاکستان فیڈرل سروس کمیشن کے صدر بھی رہے ہیں۔ وہ ایک ’’مہاجر‘‘ ہیں اور دوسری جنگ عظیم میں فیلڈمارشل مانک شاہ کے ساتھ برما میں کام کر چکے ہیں۔

فروری 1984ء میں جنرل عتیق الرحمن ایک سرکاری دورے پر نئی دہلی گئے۔ اخباری ملاقات میں انہوں نے کہا کہ برما کے زمانہ قیام میں ایک بار مانک شاہ شدید زخمی ہو گئے۔ تکلیف ناقابل برداشت ہو گئی تو مانک شاہ نے ارادہ کیا کہ وہ اپنے آپ کو گولی مار کر اپنا خاتمہ کر دیں۔ انہوں نے جنرل عتیق الرحمن سے پستول مانگا۔ جنرل عتیق الرحمن نے پستول دینے سے انکار کر دیا۔ جنرل عتیق الرحمن نے قہقہہ کے ساتھ کہا:
’’مانک شاہ نے 1971ء کی جنگ میں ہمارے ساتھ جو کیا، اگر اس کو میں اس وقت جانتا تو یقیناً میں اپنا پستول انہیں دے دیتا۔ (ٹائمز آف انڈیا، 20فروری 1984ء)
مانک شاہ دوسری عالمی جنگ میں مایوس ہو کر خود کشی کر رہے تھے، حالانکہ اس کے 25سال بعد 1971ء کی جنگ میں فاتح بن کر وہ نمایاں ہونے والے تھے۔

اسلام میں خود کشی حرام ہے، کیونکہ خود کشی خدا سے کامل مایوسی ہے۔ اسی کے ساتھ وہ آخرت کے انکار کے ہم معنی ہے۔ اگر آدمی کو یہ یقین ہو کہ مرنے کے بعد وہ ختم نہیں ہو گا بلکہ دوبارہ زندہ ہو کر آخرت کی دنیا میں پہنچ جائے گا تو وہ کبھی خودکشی نہ کرے۔ جس شخص کو آخرت کے مسئلہ کے سنگینی کا احساس ہو اس کے لیے ہر دوسری تکلیف ہیچ بن جائے گی۔

اسی کے ساتھ ایک اور پہلو بھی ہے۔ خود کشی کو حرام قرار دینا گویا انسان کو یہ پیغام دینا ہے کہ … وقتی تکلیف سے گھبرا کر مستقبل کو نہ بھول جاؤ۔

موجودہ دنیا ایک ایسی جگہ ہے جہاں ہر انسان پر غم اور تکلیف کا لمحہ آتا ہے، مگر ایسے لمحات ہمیشہ وقتی ہوتے ہیں۔ اگر آدمی اس لمحے کو برداشت کر لے تو اس کو بہت جلد معلوم ہوتا ہے کہ ’’تاریک حال‘‘ میں اس کے لیے ایک ’’روشن مستقبل‘‘ کا امکان چھپا ہوا تھا۔ وہ شکست خوردہ ہو کر اپنے آپ کو مٹا دینا چاہتا تھا، حالانکہ مستقبل اس انتظار میں تھا کہ اس کا نام فاتح کی حیثیت سے تاریخ عالم میں درج کرے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button