پاکیزہ کردار کی خواتین کا اعتماد

اگر عورت دیندار بننا چاہے تو وہ بڑے بڑے آرام اور عیش میں رہ کر بھی دیندار بن سکتی ہے اور اگر بددین بننا چاہے تو فقر و فاقہ میں بھی بددین بن سکتی ہے۔ دین کے لیے یہ ضروری نہیں کہ آدمی بھیک منگا بن جائے تو دین دار بنے اور اگر کوئی کروڑ پتی ہو گیا تو وہ دیندار نہیں ہو سکتا، یہ غلط ہے۔ دیندار بننا چاہے تو کروڑ پتی بن کے بھی دیندار بن سکتا ہے اور نہ بنناچاہے تو فاقہ مست ہو پھر بددین بن سکتا ہے، اس پر ایک واقعہ عرض ہے۔

کابل کے بادشاہوں میں امیر دوست محمد خاں بہت دیندار بادشاہ گزرے ہیں۔ امیر امان اللہ خان مرحوم کے باپ امیر حبیب اللہ خاں تھے اور حبیب اللہ خاں کے باپ امیر عبدالرحمن تھے، ان کے باپ دوست محمد خاں کا زمانہ تھا کہ کسی دوسرے بادشاہ نے افغانستان پر حملہ کیا اور فوج لے کر چڑھ دوڑا۔ امیر صاحب کو اس سے صدمہ بھی ہوا، اور دکھ بھی کہ ایک بادشاہ نے میری سلطنت پر حملہ کر دیا۔ ممکن ہے کہ بادشاہت بھی ختم ہو اور آنے والا ملک کو برباد کر دے۔

اسی فکر میں شاہی محل میں اندر تشریف لائے، اُن کی بیگم کھڑی تھیں۔ بیگم سے یہ کہا کہ آج خبر آئی ہے کہ کسی بادشاہ نے حملہ کر دیا ہے۔ میں نے اپنے شہزادے کو فوج دے کر بھیج دیا ہے تاکہ وہ جا کے دشمن کا مقابلہ کرے۔ بیگم نے کہا ٹھیک کیا، آپ گھبرائیے مت! اللہ آپ کی مدد کرے گا۔ غرض اپنے شہزادے کو فوج دے کر بھیج دیا کہ وہ دشمن کا مقابلہ کرے اور اس کو ملک میں نہ آنے دے اور دور دھکیل دے۔ شہزادہ فوج لے کر چلا گیا۔

دوسرے دن امیر صاحب گھر آئے اور چہرے پر غم کا تاثر، بیگم سے کہا: آج ایک بڑے صدمے کی خبر آئی ہے اور وہ یہ کہ میرا شہزادہ ہار گیا۔ اس نے شکست کھائی اور دشمن ملک کے اوپر چڑھا ہوا آ رہا ہے اور میرا بیٹا شکست کھا کر واپس بھاگتا ہوا آ رہاہے، مجھے اس کا بڑا صدمہ ہے، ملک بھی جا رہا ہے اور یہ بات بھی پیش آ گئی۔ بیگم نے کہا: یہ بالکل جھوٹی خبر ہے اور آپ اس کا بالکل یقین نہ کریں۔ اس نے کہا: یہ جھوٹ نہیں ہے، یہ تو سرکاری پرچہ نویس نے اطلاع دی ہے۔ محکمہ سی آئی ڈی کی خبر ہے۔ بیگم نے کہا آپ کا محکمہ بھی جھوٹا ہے اور آپ کی سی آئی ڈی بھی جھوٹی ہے۔ یہ غلط خبر ہے ایسا نہیں ہو سکتا۔

امیر صاحب کہہ رہے ہیں کہ سلطنت کی باضابطہ اطلاع ہے۔ یہ گھر میں بیٹھ کر کہہ رہی ہے کہ خبر جھوٹی ہے اور یہ باضابطہ خبر بھی بالکل جھوٹ ہے۔ امیر نے کہا کہ اب اس عورت سے بیٹھ کر کون بحث کرے۔ وہی مرغے کی ایک ٹانگ، نہ کوئی دلیل، نہ کوئی حجت۔ میں دلائل بیان کر رہا ہوں کہ محکمہ کی اطلاع اور باضابطہ خبر ہے، اس نے کہا کہ نہیں سب جھوٹ ہے، اب اس سے کون بحث کرے۔ امیر صاحب محل سرائے سے واپس چلے آئے۔ دوسرے دن بڑے خوش ہو کر محل میں آئے اور کہا کہ مبارک ہو! جو تم نے کہا تھا وہی بات سچ نکلی۔ خبر یہ آئی ہے کہ میرا شہزادہ فتح پا گیا، اس نے دشمن کو بھگا دیا اور وہ کامیابی کے ساتھ واپس آ رہا ہے۔

بیگم نے کہا الحمدللہ! اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے میری بات اونچی کی اور میری بات سچی کر دکھائی۔ امیر نے کہا کہ آخر تمہیں کیسے معلوم ہوا تھا جو تم نے کل یہ کہا تھا کہ میرا محکمہ بھی جھوٹا، سی آئی ڈی بھی جھوٹی اور پولیس بھی جھوٹی۔ تمہیں کوئی الہام ہوا تھا؟ بیگم نے کہا کہ میرا الہام سے کیا تعلق، اول تو میں عورت ذات، پھر ایک بادشاہی تخت پر بیٹھنے والی۔ یہ بزرگوں کا کام ہے کہ انہیں الہا م ہو۔ انہوں نے کہا کہ آخر تم نے اس قوت سے کس طرح کہہ دیا کہ یہ سب غلط ہے اور واقعتہً بھی وہی ہوا ۔

اس نے کہا کہ اس کا ایک راز ہے جس کو میں نے اب تک کسی کے سامنے نہیں کھولا اور نہ اسے کھولنا چاہتی ہوں۔ امیر نے کہا :وہ کیسا راز ہے؟ اس نے کہا صاحب! ایسی بات ہے کہ میں اس کو کہنا نہیں چاہتی۔ ’’ألاِنَسَانُ حَرِیٔصٌ فِیْ مَامُنِعَ۔‘‘ مثل مشہور ہے کہ جس چیز سے روکا جائے اس کی حرص اور زیادہ بڑھ جاتی ہے کہ آخر اس میں کیا ہو گا۔ امیر صاحب نے کہا کہ اب تو بتانا پڑے گا۔ جب بہت زیادہ سر ہو گئے تو بیگم نے کہا کہ آج تک میں نے یہ راز چھپایا، آج کھولے دیتی ہوں۔

وہ راز یہ ہے کہ مجھے اس کا کیوں یقین تھا کہ شہزادہ فتح پا کے آئے گا یا قتل ہو گا مگر شکست نہیں کھا سکتا، دشمن کو پیٹھ دکھا کے نہیں آ سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ میرے پیٹ میں تھا، میں نے خدا سے عہد کیا تھا کہ اس نو مہینے میں ایک مشتبہ لقمہ بھی اپنے پیٹ میں نہیں جانے دوں گی۔

رزق حلال کی کمائی میرے پیٹ میں جائے گی، اس لیے کہ ناپاک کمائی سے خون بھی ناپاک پیدا ہوتا ہے، ناپاک خون سے اخلاق بھی گندے اور ناپاک ہوتے ہیں، تو میں نے عہد کیا اور نو مہینے اس کو پورا کیا کہ لقمہ حرام تو بجائے خود ہے، میں نے کوئی مشتبہ لقمہ بھی پیٹ میں نہیں جانے دیا، خالص حلال کی کمائی سے پیٹ کو بھرا، ایک تو میں نے یہ عہد کیا، اس کو لازم رکھا اور اس پرعمل کیا۔

دوسری بات میں نے یہ کی کہ جب یہ پیدا ہو گیا تو ہزاروں دودھ پلانے والی ملازمائیں تھیں، میں نے اس کو انہیں نہیں دیا، اپنا دودھ پلایا۔ اور دودھ پلانے کا طریقہ یہ تھا کہ جب یہ روتا تو میں پہلے وضو کرتی، دو رکعت نفل پڑھتی، اس کے بعد اسے دودھ پلاتی اور دعائیں بھی مانگتی۔ تو اندر پاک غذا پھر اللہ کی طرف توجہ۔ غرض دودھ بھی پاک، اس سے پیدا ہونے والا خون بھی پاک اور پاک خون سے پیدا ہونے والے اخلاق بھی پاک۔

اس لیے اس کے اندر بداخلاقی نہیں ہو سکتی۔ پشت دکھا کر آنا اور بزدلی کرنا یہ کمینے اخلاق میں سے ہے۔ شجاعت اور بہادری یہ پاکیزہ اخلاق میں سے ہے۔ جب اس کا خون پاک تھا تو یہ کیسے ممکن تھاکہ یہ بزدل بنتا۔ یہ ممکن تھا کہ یہ قتل ہو جاتا، شہید ہو جاتا، مگر یہ ممکن نہیں تھا کہ یہ پشت کے اوپر زخم کھا کر واپس آتا اور بزدلی دکھاتا۔ اس کے خون میں ناپاکی نہیں تو اس کے افعال میں ناپاکی کہاں سے آئے گی! یہ وجہ تھی کہ جس کی بنا پر میں نے دعویٰ کر دیا تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ وہ شکست کھا کر آئے۔ ہاں اگر آپ کہتے کہ وہ شہید ہو گیا ہے تو میں یقین کر لیتی کہ وہ قتل ہو گیا۔ اسی بنا پر میں نے یہ دعویٰ کیا تھا اور آج میں نے یہ راز کھولا ہے۔

آپ اندازہ کریں کہ امیر دوست محمد خاں کی بیوی ایک اقلیم کی ملکہ ہیں۔ ہزاروں فوجیں اور سپاہ، حشم و خدم اس کے سامنے ہیں اور وہ جب تخت سلطنت پر بیٹھ کر اتنی متقی بن سکتی ہے تو ہماری بہو بیٹیاں معمولی گھرانوں میں رہ کر کیوں متقی نہیں بن سکتیں۔ ہمارے پاس کونسی ایسی دولت ہے؟ ہم اگر لکھ پتی یا کروڑ پتی بنیں، سارے افریقہ کے مالک تو نہیں ہو گئے، ہفت اقلیم کے بادشاہ تو نہیں ہو گئے۔ ایک ملکہ اور بادشاہ کی بیوی جب یہ تقویٰ پیدا کر سکتی ہے تو میری بہنیں اپنے اندر کیوں تقویٰ پیدا نہں کر سکتیں؟ میری بیٹیاں یہ تقویٰ کیوں نہیں دکھلا سکتیں؟

اگر دیندار بننا چاہیں تو مرد و عورت کروڑ پتی ہو کر بھی بن سکتے ہیں، نہ بننا چاہیں تو فاقہ زدہ ہو کر بھی دیندار نہیں بن سکتے۔ یہ اپنے قلب پر موقوف ہے اور قلب میں یہ جذبہ اس وقت پیدا ہو گا جب اس قلب کی تربیت کی جائے، اس کو تعلیم دی جائے، اس میں علم ڈالا جائے، اس میں اللہ کی عظمت پیدا کی جائے۔ اس میں حلال کی کمائی کی رغبت پیدا کی جائے، ناجائز باتوں سے بچنے کا جذبہ پیدا کیا جائے تب قلب میں صلاحیت آئے گی۔ پھر جو اولاد تربیت سے پیدا ہو گی، وہ صالحین میں سے ہو گی۔ وہ خود بخود تقویٰ و طہارت اور نفس کی پاکیزگی لیے پیداہو گی۔ تو واقعہ یہ ہے کہ بنیاد عورت سے چلتی ہے۔ مگر عورت کے بنانے کی بنیاد مردوں سے چلتی ہے۔ انجام کار ہماری، آپ کی کوتاہی نکلتی ہے، ہماری بہنوں کا کوئی قصور نہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button