برائی کو ابتداء ہی سے ختم کریں

چاہیے کہ برائی کو ابتداء ہی سے ختم کر دیا جائے۔ انگریزی میں کہتے ہیں:
"Nip the evil in the bud”
یعنی برائی کو ابتدائی ہی سے ختم کر دیں۔
زنا کا پہلا قدم بدنظری ہے، لہٰذا چاہیے کہ اس سے انسان بہت زیادہ پرہیز کرے، اس کا سیدھا اثر انسان کے دل پر ہوتا ہے۔ بدنظری کی وجہ سے انسان کا چہرہ بھی بے نور ہو جاتا ہے۔ بدنظری کرنے والے انسان کے ذہن میں شیطان برے خیالات ڈالتا ہے:
میں تو صرف اِدھر اُدھر ہی دیکھتی ہوں، میں کرتی تو کچھ نہیں ہوں، کسی سے بات بھی نہیں کرتی، کچھ نہیں کرتی۔ یاد رکھیں کہ بدنظری سے ہاتھی بھی پھسل جاتا ہے، کوئی عورت کتنے ہی مضبوط کردار کی مالکہ ہو گی تو اس کا بھی پھسلنا آسان ہو جائے گا۔ اس لیے چاہیے کہ سب سے پہلے اس گناہ سے اللہ رب العزت کے حضور توبہ کی جائے۔ اب اس بدنظری سے بچنے کے بہت سارے طریقے ہیں جنہیں پڑھ کر اس کا علاج کر لیجئے۔

بدنظری کے مواقع سے بچیں

ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان بدنظری کے مواقع سے ہی بچے، مثلا: عورت گھر سے بغیر مجبوری کے نکلے ہی نہیں۔ یہ جو گھومنے پھرنے کا مزا ج ہوتا ہے، یہ بھی انسان کو زیادہ گناہوں کا مرتکب کروا دیتا ہے۔ بیوی اپنے خاوند کو خوش رکھے تاکہ دونوں آپس میں مل کر سکون کی زندگی گزاریں، کسی تیسرے بندے کی طرف نظر اُٹھانے کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔ انسان اپنے آپ کو غیر سے بے طمع کر لے، اس لیے کہ جو آدمی دنیا کے اندر بدکاری کرے گا، بدنظری کرے گا، حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ اس کا ایک وبال یہ پڑ ے گا کہ قیامت کے دن اللہ رب العزت کے دیدار سے محروم کر دیا جائے گا۔ اب یہ کتنی بڑی سزا ہے کہ ان مٹی کے جسموں کو دیکھ کر انسان اللہ رب العزت کے دیدار سے محروم کر دیا جائے۔ اس لیے حدیث پاک میں آتا ہے کہ جیسے عورتیں آنکھوں میں سرمہ ڈالتی ہیں اسی طرح قیامت کے دن لوہے کی سلائیاں ہوں گی جو آگ میں گرم کر کے اس کی آنکھوں میں پھری جائیں گی، اس لیے کہ یہ بدنظری کی مرتکب ہوتی تھیں۔

عورت اپنے پردے کا خیال رکھے

عورت کو چاہیے کہ وہ اپنے پردے کا خود خیال رکھے۔ اگر پردے کے معاملے میں وہ کمزور ہو گی، بے احتیاطی کرے گی، تو مرد کو دیکھنے کا موقع مل جائے گا اور مرد تو عورتوں کے معاملے میں ہر وقت پرامید ہوتے ہیں، یہ بے حجابی اور بے پردگی اصل میں عورت کو کنٹرول کرنی چاہیے۔ باہر نکلے تو باقاعدہ گاؤن کے ساتھ اپنے چہرے کو چھپا کر، ڈھانپ کر ایسے طریقے سے نکلے کہ غیر محرم مرد کو ا س کے جسم کے حسن و جمال کا پتہ ہی نہ چلے۔ صحابیات کے بارے میں آتاہے کہ اگر ضرورت کے وقت ان کو کسی وقت باہر نکلنا پڑتا تھا تو وہ راستہ چلتے ہوئے دیوار کے اتنے قریب چلتی تھیں کہ ان کے بدن کے کپڑے دیوار کے ساتھ اٹکتے تھے۔ تاکہ مرد اگر راستے کے درمیان میں چل رہے ہوں تو ان کے قریب سے بھی نہ گزریں، دور ہی رہیں۔ عام طور پر جن کے ساتھ دور قریب کی رشتہ داری ہوتی ہے، ان کے ساتھ اس پردے کے معاملے میں بدپرہیزی ہوتی ہے اور یہی بدپرہیزی بالآخر ان کے لیے ذلت کا سبب بنتی ہے۔ گھر کے اندر بھی عورت کو چاہیے کہ اس طرح سے رہے کہ اپنے آپ کو بے پردہ نہ ہونے دے۔

ماں کی ذمہ داری

ماں کو چاہیے کہ وہ نظر رکھے اور اپنی بچی کی نیک بننے میں مدد کرے، ایسے برائی کے مواقع سے اس کو بچائے اور اس کو اچھی طرح سے نصیحت کرے۔ اور ایک بات جو ہم نے دیکھی کہ کچھ گھروں میں تو ایسی مصیبت ہے کہ فون کو ریسو کرنے کا کام ہی جوان بچی کو دے دیتے ہیں۔ باپ بھی بیٹھا ہے، ماں بھی بیٹھی ہے، بھائی بیٹھا ہے، جب فون کی گھنٹی بجتی ہے تو جوان بیٹی کال ریسیو کر کے پوچھتی ہے کہ کون بول رہا ہے؟ یہ کتنی بڑی غلطی ہے! بھائی مرد لوگ کس مرض کی دوا ہیں؟ ان کو چاہیے کہ فون اٹینڈ کریں۔ اور اگر مرد نہیں تو پھر یہ ذمہ داری ماں کی ہے کہ وہ پختہ عمر کی ہے، میچور ہے، اس کو پتہ ہے کہ آگے سے کون بندہ بات کر رہا ہے؟ جوان بچی کو اس طرح سے فون کے قریب جانے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ اس سے اگر احتیاط کر لیں تو برائی کے پچاس فیصد امکانات ویسے ہی ختم ہوجاتے ہیں۔ جس بچی نے ٹیلی فون کی مصیبت سے نجات پا لی یوں سمجھ لیں کہ اس نے اللہ رب العزت کی رضا کو حاصل کرنے کے لیے آدھا سفر کر لیا۔

نئے زمانے کا وبال

یہ نئے زمانے کا وبال ہے، پہلے یہ مواقع اس لیے کم ہوتے تھے کہ لڑکی اپنے گھر میں ہے، لڑکا اس کے ساتھ رابطہ بھی کرنا چاہے تو درمیان میں کوئی طریقہ ہی نہیں۔ کسی بندے کو بھیجنا ایک مشکل، پھر کسی کے سامنے کہنا پڑتا تھا، بات کو ظاہر کرنا پڑتا تھا، آج تو کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ ایسی مصیبت ہے کہ بچیاں اپنے کمروں میں بند ہو کر گھنٹہ بات کریں، دو گھنٹہ بات کریں، بے فکری سے کر سکتی ہیں۔ بعض لوگوں کے مطابق تین تین چار چار گھنٹے روزانہ باتیں کرتے ہیں اور وہ باتیں کیا ہوتی ہیں؟ یہی گناہ کی باتیں۔ یعنی اتنا وقت اللہ رب العزت کو ناراض کرنے میں لگ گیا۔ کئی دفعہ سوچتا ہوں، اللہ یہ آپ ہی کا حلم ہے کہ اتنے علم کے باوجود آپ نے ہماری شکلیں مسخ کرنے سے روکا ہوا ہے، آپ نے اپنے عذاب کا کوڑا پھینکنے سے روکا ہوا ہے، حالانکہ ظاہر میں تو جو ہمارے عمل ہیں وہ تو آپ کے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں۔

مخلوط محفلوں میں جانے سے پرہیز کریں

مخلوط محفلوں میں جانے سے پرہیز کیا جائے۔ عام طور پر شادی بیاہ اور اس قسم کی جو تقاریب ہوتی ہیں ان میں عورتیں ویسے بھی بن سنور کر، تیار ہو کر، اچھے کپڑے پہن کرجاتی ہیں، اور جب عورت بنی سنوری ہو گی تو اس کے لیے بے پردگی کرنا آسان ہو گا۔ اس وقت نیک شریف عورتیں بھی بے پردگی کر لیتی ہیں۔ لہذا ایسی محفلوں میں جانے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ وہاں جانے سے انسان کا ایمان زیادہ خراب ہوتا ہے۔ اسی طرح غیر محرم کو دیکھنا، اس کے ساتھ باتیں کرنا، چونکہ بات سے بات بڑھتی ہے اور پھر شیطان انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کر دیتا ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button