معززین کی لغزشوں کی تلافی کرنے والا

سلیمان بن عبدالمالک کے دورِ حکومت میں خزیمہ بن بشیر نامی ایک شخص تھا جس کا تعلق رقہ شہر کے قبیلہ بنو اسد سے تھا۔ وہ صاحب مروت تھا اور مال و دولت کی اس کے ہاں فروانی تھی۔ وہ اپنے بھائیوں سے تعاون کا ہاتھ بڑھاتا اور ان کی غم خواری کرتا۔ اس کا یہی وطیرہ رہا یہاں تک کہ خود بھائیوں کا محتاج ہو گیا۔

ایک وقت تک انہوں نے اسے سہارا دیا، لیکن پھر اس سے جان چھڑانے لگے۔ جب اس نے ان کے بدلتے ہوئے تیور دیکھے تو اپنی بیوی (جو اس کی چچازاد تھی) کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے میری چچازاد! میں نے اپنے بھائیوں کے بدلتے ہوئے رویے دیکھے ہیں۔ میں نے عزم کر لیا ہے کہ گھر ہی میں رہوں گا، تاآنکہ مجھے موت آ جائے، پھر اس نے دروازہ بند کر لیا اور قوت لایموت کھانے لگا، حتیٰ کہ وہ خوراک بھی ختم ہو گئی۔

عکرمہ فیاض ربعی جزیرہ کا فرماں روا تھا، وہ محفل جمائے اہل شہر کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اچانک خزیمہ بن بشیر کا ذکر چھڑ گیا۔ عکرمہ نے کہا: اس کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے بتایا: اس کی حالت اتنی دگرگوں ہے کہ بیان سے باہر ہے، اس نے دروازہ بند کر کے گھر میں لزوم اختیار کر لیا ہے۔ فیاض نے کہا: خزیمہ کو کوئی سہارا دینے والا یا کوئی بدلہ دینے والا نہیں ملا؟ لوگوں نے کہا: نہیں۔

عکرمہ نے انتظار کیا، جب رات ہوئی تو چار ہزار دینار لیے اور ایک تھیلے میں رکھے، پھر سواری پر پالان باندھنے کا حکم دیا اور گھر والوں سے چھپ کر نکل گیا۔ اس کا غلام تھا جس نے مال اٹھا رکھا تھا۔ وہ خزیمہ کے دروازے تک پہنچ گیا، غلام سے تھیلا پکڑا اور اسے دور ہٹا دیا، آگے بڑھا اور دستک دی۔ خزیمہ باہر نکلا تو اس نے اسے تھیلا پکڑا دیا اور کہا: اس کے ذریعے اپنی حالت سنوارو۔

اس نے تھیلا پکڑا تو وہ کافی بوجھل تھا، نیچے رکھ دیا اور اس کی سواری کی لگام پکڑی۔ پوچھا: میں تجھ پر قربان جاؤں تو کون ہے؟ وہ بولا: اے شخص! اگر اپنا تعارف مقصود ہوتا تو اس پہر کبھی نہ آتا۔ خزیمہ نے کہا: بغیر تعارف کے میں قطعاً یہ قبول نہیں کروں گا۔ اس نے کہا: ’’میں معززین کی لغزشوں کی تلافی کرنے والا ہوں۔‘‘ اس نے کہا: اور بتاؤ ۔ کہا: اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔ پھر وہ چلا گیا۔

خزیمہ نے تھیلا اپنی بیوی کو دکھایا اور بولا: خوشخبری ہے، اللہ تعالیٰ نے کشادگی اور خیر عطا کر دی۔ اگر یہ پیسے ہیں تو بہت زیادہ ہیں، کھڑی ہو کر چراغ جلا۔ وہ بولی: چراغ جلانے کو نہیں۔ وہ ہاتھ سے ٹٹولتا رہا، اسے دیناروں کا کھردرا پن محسوس ہو رہا تھا، لیکن یقین نہیں آ رہا تھا۔

عکرمہ اپنے گھر لوٹا تو بیوی پریشان تھی، اس کے متعلق پوچھ رہی تھی، بتایا گیا کہ وہ اکیلا سوار ہو کر گیا تھا، وہ شک میںمبتلا ہو گئی، گریبان چاک کر لیا اور رخساروں کو خوب پیٹا۔ عکرمہ نے اس کی یہ حالت دیکھی تو پوچھا: تجھے کس نے نڈھال کر دیا؟ وہ بولی: تو نے میرے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔ کہا: وہ کیا؟ وہ بولی: امیر جزیرہ رات کے اندھیرے میں غلاموں کے ہمراہ پراسرار انداز سے نکلتا ہے، ضرور کسی دوسری بیوی یا لونڈی کے پاس گیا ہو گا؟

اس نے کہا: اللہ جانتا ہے ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ وہ بولی: پھر بتاؤ کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا: ایسے وقت میں نکلنے کا مقصد صرف یہی تھا کہ کسی کو علم نہ ہو سکے۔ بیوی نے کہا: آخر بات کیا ہے؟ وہ بولا: تم اسے راز میں رکھو گی؟ کہا: ایسا ہی کروں گی۔ اس نے سارا قصہ کہہ سنایا، جو کچھ خزیمہ نے کہا اور جو اس نے جواب دیا۔ پھر بیوی سے کہنے لگا: کیا اب قسم بھی اٹھا دوں؟ وہ بولی: نہیں میرا دل مطمئن ہو گیا ہے۔

صبح ہوئی تو خزیمہ نے قرض خواہوں کے قرضے واپس کیے، اپنی حالت کو درست کیا اور سلیمان بن عبدالمالک کے پاس فلسطین چلا گیا۔ اس کے دروازے پر رکا، دربان اندر گیا اور سلیمان کو اس کے متعلق بتلایا۔ وہ حسن مروت میں مشہور تھا۔ سلیمان بھی اسے جانتا تھا اور اسے اندر آنے کی اجازت دے دی۔ جب وہ آیا اور آداب شاہی کو ملحوظ رکھتے ہوئے سلام کہا تو وہ بولا: خزیمہ اتنی دیر کہاں رہے؟ کہا: میری حالت بہت نازک ہو گئی تھی۔

سلیمان: ہمارے پاس آنے سے کون سی چیز مانع تھی؟
خزیمہ: میری کمزوری۔
سلیمان : پھر کیسے آنا ہوا؟
خزیمہ : مجھے معلوم نہیں، رات کے کسی پہر ایک شخص میرے دروازے پر آیا، اس کے ساتھ یہ بات چیت ہوئی اور اسے سارا قصہ کہہ سنایا۔
سلیمان: کیا تو اسے پہچانتا ہے؟
خزیمہ: میں نہیں پہچانتا کوئی عجب شخص تھا، اس نے صرف اتنا کہا: میں معززین کی لغزشوں کی تلافی کرنے والا ہوں۔

اب سلیمان اس شخص کی معرفت کے لیے بے چین سا ہو گیا اور کہا: اگر ہم اسے جان لیتے تو اس کی خوب حوصلہ افزائی کرتے۔ پھر بولا: مجھ پر لازم ہے کہ تجھے آسودہ حال کروں۔ چنانچہ خزیمہ کو والی جزیرہ بنا دیا جہاں عکرمہ الفیاض تعینات تھا۔ خزیمہ جزیرہ کی طرف روانہ ہو گیا، جب قریب پہنچا تو عکرمہ اور تمام اہل شہر اس کی ملاقات کے لیے باہر نکل آئے۔ وہ دونوں ایک ساتھ چلتے ہوئے شہر میں داخل ہو گئے۔ خزیمہ گورنر ہاؤس میں اپنے مسند پر براجمان ہو گیا اور محتسب سے کہا کہ عکرمہ کا احتساب کیا جائے۔ جب محاسبہ کیا گیا تو عکرمہ کے فضول اخراجات کا سراغ ملا۔

خزیمہ نے ادا کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ وہ بولا: میرے پاس ادا کرنے کا کوئی راستہ نہیں۔ خزیمہ نے کہا: ادا کرنا لازمی ہے۔ اس نے کہا: میرے پاس کچھ نہیں، تو جو کرنا چاہتا ہے کر لے۔ خزیمہ نے قید و بند کا حکم جاری کر دیا۔ پھر ادا کرنے کا مطالبہ کیا تو عکرمہ نے جواباً کہا:میں ان لوگوں میں سے ہوں جو مال و دولت کی خاطر عزت داؤ پر لگاتے ہیں، تم جو چاہو کرو۔ خزیمہ نے اسے بیڑیاں پہنا دیں اور قید بامشقت سنا دی۔ ایک مہینہ یا زیادہ عرصہ ایسے ہی گزر گیا، عکرمہ کی حالت بہت خراب ہو گئی۔ اس کی بیوی کو پتا چلا تو وہ چلااٹھی، اپنی لونڈی کو بلایا جو انتہائی ذہین و فطین تھی اور کہا: ابھی امیر شہر کے پاس جاؤ، جب وہاں پہنچو تو کہنا کہ علیحدگی میں بات کرنا چاہتی ہوں۔ جب تم تنہا ہو تو کہنا: آپ کی طرف سے ’’معززین کی لغزشوں کی تلافی کرنے والے‘‘ کا بدلہ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اسے بیڑیاں پہنائی جائیں اور حبس بے جا میں رکھا جائے۔

جب خزیمہ نے اس کی بات سنی تو بولا: افسوس صد افسوس! یہ وہ شخص ہے؟ اس نے کہا: ہاں۔ خزیمہ نے اسی وقت سواری پر پالان رکھنے کا حکم دیا اور تمام اہل شہر کو اکٹھا کرنے کا حکم جاری کیا۔ پھر وہ انہیں لے کر جیل کی طرف چل پڑا، جیل کھولی گئی اور خزیمہ اپنے حاشیہ نشینوں سمیت اندر داخل ہوا، عکرمہ سے قید و بند کی حالت میں ملا۔ جب عکرمہ نے اس کی اور لوگوں کی طرف دیکھا تو نفرت سے سر جھکا لیا اور کہا: تو نے مجھے یہ بدلا دیا ہے؟

خزیمہ نے کہا: تمہارے کام عمدہ تھے، لیکن میں نے برا معاملہ کیا۔ پھر بولا: اللہ ہمیں اور تجھے معاف کرے۔ پھر بیڑیاں اتارنے کا حکم دیا، جب اتار دی گئیں تو کہا: اب میرے پاؤں میں پہنا دو۔ عکرمہ نے کہا: کیا مطلب؟ وہ بولا: میں چاہتا ہوں میں بھی تیری جتنی تکلیف اور مشقت کی سزا پاؤں۔ عکرمہ نے کہا: بخدا! ایسا نہ کرو، سو وہ دونوں وہاں سے نکلے، ہاں تک کہ خزیمہ کے گھر آ گئے۔ عکرمہ اسے الوداع کہہ کر واپس پلٹا تو خزیمہ نے کہا: تم رات یہیں ٹھہرو۔

عکرمہ نے پوچھا: کیا مطلب؟ خزیمہ نے کہا: میں تمہاری ناگفتہ بہ حالت سنوارنا چاہتا ہوں، تم سے زیادہ میں تمہاری اہلیہ سے شرمندہ ہوں۔ پھر اس نے حمام کے متعلق حکم دیا، وہ خالی کروایا گیا۔ وہ دونوں اس میں داخل ہو گئے اور خود خزیمہ نے اس کی کنگی پٹی کی۔ پھر باہر نکلے اور خزیمہ نے اسے زرق برق پوشاک پہنائی، بہت زیادہ مال و زر دیا، پھر اس کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے، اس نے عکرمہ سے اجازت لی کہ وہ اس کی اہلیہ سے معذرت کرنا چاہتا ہے۔ اس نے اجازت دے دی۔

خزیمہ نے معذرت کی اور اپنے کیے پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ پھر عکرمہ سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ امیر المؤمنین سلیمان بن عبدالمالک کے پاس جائے، وہ تب رملہ میں مقیم تھا۔ دربان نے امیر المؤمنین کو خزیمہ بن بشیر کی آمدکی اطلاع دی۔ سلیمان گھبرا گیا اور بولا: والی جزیرہ میرے بلائے بغیر آیا ہے، لگتا ہے کوئی بڑا حادثہ پیش آ گیا ہے۔ خزیمہ جب دربار پہنچا تو امیر نے سلام سے پہلے ہی پوچھا: خزیمہ تمہارے پیچھے حالات کیسے ہیں؟
خزیمہ :امیر المومنین! سب ٹھیک ہے۔
امیرالمؤمنین: یہاںکیوں آئے ہو؟
خزیمہ: ’’معززین کی لغزشوںکی تلافی کرنے والے‘‘ کی بازیابی ہوئی تو میں اسے آپ کی خدمت عالیہ میںلے کر حاضر ہو گیا کہ آپ اس کی ملاقات اوردیکھنے کے آرزومند تھے۔

امیرالمؤمنین: وہ کون ہے؟
خزیمہ: عکرمہ الفیاض۔
امیر المؤمنین نے عکرمہ کو آنے کی اجازت دی، وہ دربار میں داخل ہوا، آداب خلافت کے مطابق سلام کہا و امیر المؤمنین نے اس کا خیر مقدم کیا اور اپنی قریبی نشست پر بٹھایا اور کہا:
عکرمہ! خزیمہ سے حسنِ سلوک تیرے لیے وبال جان بن گیا، پھر گویا ہوا: اپنی ضرورت اور پسند ایک کاغذ پر تحریر کر دو۔ عکرمہ نے کہا: امیر المؤمنین! آپ نے مجھے معاف کر دیا؟ امیر المؤمنین: ضرور، کیوں نہیں۔ پھر کاغذ اور دوات منگوائی اور کہا: علیحدگی میں اپنی تمام ضروریات لکھو، اس نے تحریر کر دیں۔

امیر المؤمنین نے فوراً عمل درآمد کا حکم دیا، دس ہزار دینار اور عمدہ گھریلو ملبوسات عطا کیے۔ پھر نیزہ منگوایا اور جزیرہ، آرمینیہ اور آذربائیجان پر تقرری کی مہر ثبت کر دی۔ نیز کہا: خزیمہ کا معاملہ تمہارے اختیار میں ہے، چاہو تو اسے باقی رکھو اور چاہو تو معزول کر دو۔ عکرمہ نے کہا: میں اسے بحال کرتا ہوں، پھر وہ دونوں واپس چلے آئے۔ (المستجاد من فعل الاجواد، صفحہ ۱۸۔۲۲)

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button