انجانے خوف میں مبتلا عمران خان
سیاست امکانات کا کھیل ہے، تمام نامور سیاستدانوں نے جیلیں کاٹی ہیں اور وہ اس پر بجا طور پر فخر کرتے ہیں کہ انہوں نے خاص مقصد کیلئے قید و بند کی صعوبتیں اٹھائی ہیں۔ جی ایم سید نے سب سے زیادہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں، ذوالفقار علی بھٹو عوام کے مقبول لیڈر ہونے کے باوجود جیل میں قید رہے، جی ایم سید کے بعد طویل عرصہ تک جیل میں بند رہنے والے لیڈر آصف علی زردای ہیں، اسی طرح شریف خاندان نے طویل جلا وطنی اور جیل کاٹی ہے، اس کے باوجود یہ سیاستدان ابھر کر سامنے آئے کیونکہ بزرجمہر جیل کو ایک تربیت گاہ قرار دیتے ہیں جب تک کسی سیاستدان نے جیل نہ کاٹی ہو اسے منجھا ہوا سیاستدان نہیں سمجھا جاتا ہے۔ سیاستدانوں نے گرفتاریوں کو اپنے لئے اعزاز سمجھا اور جب انہیں ایوان کے اندر آنے کا موقع ملا تو انہوں نے اسے جمہوریت کیلئے قربانی سے تعبیر کیا۔
پاکستان کی جموری تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ جن سیاستدانوں کو ایوان سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی انہوں نے ایک عرصہ تک خاموشی اختیار کر لی، حالات نے ثابت کیا کہ ان کی خاموشی رائیگاں نہیں گئی، پاکستان کے عوام نے انہیں دوبارہ منتخب کیا بلکہ سہ بارہ منتخب کیا، متعدد سیاستدان خود دنیا سے کوچ کر گئے مگر ان کی اولاد آج اقتدار میں ہے، میاں نواز شریف کو ملک کا تین بار وزیر اعظم رہنے کا اعزاز حاصل ہے تاہم ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ میاں نواز شریف کو جب جب اقتدار سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی وہ اگلی بار اس سے زیادہ مقبولیت کے ساتھ عوامی حمایت سے منتخب ہوئے۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو عمران خان نے عجلت بازی کا مظاہرہ کیا ہے اور اقتدار جانے کے بعد ایسا تاثر دیا ہے جیسے وہ اقتدار کے بغیر نہیں رہ سکتے ہیں۔ اگر وہ تھوڑا انتظار کرتے، حالات کا جائزہ لیتے تو یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حالات سے وہ بھر پور فائدہ اٹھا سکتے تھے کیونکہ انہوں نے جس حالت میں ملکی معیشت چھوڑی ہے اسے سنبھالا دینا اور معیشت کو بحال کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے، موجودہ مخلوط حکومت کی ناکامی کی واضح امکانات ہیں جب مخلوط حکومت ناکام ہوتی تو عمران خان اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے الیکشن میں بھاری اکثریت سے منتخب ہو سکتے تھے لیکن ایسا لگتا ہے انہوں نے انتظار کرنے کی بجائے جو راہ اختیار کی ہے اس سے کئی مواقع ضائع کر دیئے ہیں۔
ایک لمحہ کیلئے سوچئے جو سسٹم آصف زرداری کو بار بار مواقع مہیا کر سکتا ہے جو سسٹم میاں نواز شریف کو تین بار وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کر سکتا ہے، وہ سسٹم عمران خان کو دوبارہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز کیوں نہیں کر سکتا؟
گزشتہ چند دنوں میں عمران خان نے جس طرح سے ردعمل کا اظہار کیا ہے اس سے معلوم ہو رہا ہے کہ کوئی انجانا خوف ان کا پیچھا کر رہا ہے۔تحریک انصاف میں پرویز خٹک، اسد قیصر اور شاہ محمود قریشی کے تجربے سے فائدہ نہیں اٹھایا گیا، اس کے برعکس نووارد کی رائے پر عمل کر کے نقصان اٹھایا گیا ہے۔ سیاست ٹھنڈے دماغ سے سوچنے اور مستقبل پر نظر رکھنے کا نام ہے، پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن نے اس پر عمل کیا تو وہ آج اقتدار میں ہیں تحریک انصاف نے جذبات کا مظاہرہ کیا تو وپ اقتدار سے باہر ہے۔
کہتے ہیں سیاست میں ایک غلطی کی گنجائش ہوتی ہے جبکہ دوسری غلطی کا بھاری نقصان اٹھانا پڑتا ہے اس حوالے سے دیکھا جائے تو تحریک انصاف سخت مزاحمتی رویہ اپنا کر ایک غلطی کر چکی ہے دوسری غلطی اداروں کو حالات کا ذمہ دار قرار دینا ہے۔ ایک لمحے کیلئے فرض کرتے ہیں کہ عمران خان کے مطالبے پر فوری انتخابات ہو جاتے ہیں مگر انتخابات میں تحریک انصاف کو اس قدر نشستیں حاصل نہیں ہوتی ہیں جس سے وفاق میں حکومت قائم کی جائے تو ان کے پاس کیا آپشن رہ جائے گی، اس صورت میں ممکن ہے انہیں 2028ء تک انتظار کرنا پڑے۔ الیکشن میں ناکامی کے بعد وہ بخوشی انتظار کریں گے مگر اب انتظار کیلئے تیار نہیں ہیں۔
یہ بات تحریک انصاف کیلئے اطمینان کی باعث ہونی چاہئے کہ مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت نئے انتخابات کو مسائل کا حل قرار دے رہی ہے، جمعیت علمائے اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمان نے بھی نئے انتخابات کا مطالبہ کیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں خود بھی الیکشن کرانے کے حق میں ہیں، اس سے پہلے جو وقت مل رہا ہے اسی الیکشن کی تیاری سمجھا جانا چاہئے، سو اس قلیل مدت میں ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کیا جانا چاہئے جو ملک و قوم کیلئے نقصان دہ ہو اور الیکشن میں کامیاب ہو کر آنے والی حکومت کیلئے مشکلات کا باعث بن جائے۔