جاہلیت سے باہر نکلیں، بیوہ کی شادی کرائیں

ہمارے بہت سے سماجی مسائل کا تعلق بیوہ کی زندگی سے جڑا ہے۔ جس گھر میں بیوہ موجود ہو اسے بوجھ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ ماں باپ کی فکر ایک فطری امر ہے مگر بھابھیاں حتیٰ کہ سگے بھائی بیوہ کو بوجھ سمجھ کر اس کے ساتھ برتاؤ کرتےہیں، بھابھیوں کا رویہ تو یہ ہوتا ہے جیسے وہ اپنی بیوہ نند پر احسان کر رہے ہوں اور شوہر کے پیسوں کا برابر حساب رکھتی ہیں اس طرح کی زندگی کسی بھی انسان کو جیتے جی مارنے کے مترادف ہوتی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ ہوتا ہے کہ بیوہ چونکہ گھر میں فارغ ہوتی ہے تو اسے سازش کرنے کا موقع مل جاتا ہے اور کئی گھرانے بیوہ کی وجہ سے بکھر جاتے ہیں سو خوشگوار زندگی چاہتے ہیں تو پہلی فرصت میں بیوہ کی شادی کرا دیں۔

ہندوؤں میں یہ عیب سمجھا جاتا ہے کہ شوہر کی موت کے بعد عورت (بیوہ) کسی دوسرے مرد سے شادی کرے۔ اس لیے لامحالہ وہ شوہر کی ارتھی میں کود پڑتی ہے اور زندہ جل جانے کو نفرت کی زندگی پر ترجیح دیتی ہے۔ اس کے برعکس اسلام نے نہ صرف اجازت دی، ترغیب دی اور مستحب و مستحسن بلکہ بعض حالات میں واجب قرار دیا کہ عدت گزارنے کے بعد عورت دوسرے مرد سے نکاح کرے اور وہ مر جائے تو تیسرا شوہر کر لے، وہ بھی مر جائے تو چوتھے شوہر کی زوجیت میں آ جائے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے دکھایا۔ آپ کی اکثر بیویاں بیوہ تھیں جن کے پہلے شوہر فوت ہو چکے تھے۔ ان میں بعض وہ تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے دو شوہروں کے نکاح میں رہ چکی تھیں۔

اسلام نے عدل و انصاف کا قانون جاری کیا ۔ عورتوں کے حقوق مردوں پر ایسے ہی لازم کیے جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں۔ اس کو آزاد و خود مختار بنایا اور اپنی جان و مال کی ایسی ہی مالک قرار دی جیسے مرد۔ کوئی شخص خواہ باپ دادا ہی ہو بالغ عورت کو کسی شخص سے نکاح کرنے پر مجبور نہیں کر سکتا، اگر نامنظور کر دے تو باطل ہو جاتا ہے ۔ کسی مرد کو بغیر اُس کی رضا و اجازت کے کسی تصرف کا حق نہیں، شوہر کے مرنے یا طلاق دینے پر وہ خود مختار ہے۔ اپنے رشتہ داروں کی میراث میں اس کو بھی حصہ ملتا ہے۔
ترجمہ:’’ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔‘‘ (النساء ۱۱)

اس پر خرچ کرنے اور اس کو راضی رکھنے کو شریعت محمدیہ نے ایک عبادت قرار دیا۔ شوہر بیوی کے حقوق ادا نہ کرے تو وہ اسلامی عدالت کے ذریعے اس کو حق ادا کرنے پر ورنہ طلاق پر مجبور کر سکتی ہے۔

اسلام نے عورت کو بڑا مرتبہ دیا اور اس کو اعزاز و اکرام سے نوازا ہے۔ پستی سے نکال کر اس کو بلندی عطا کی ہے لیکن افسوس ہے کہ عورتیں اب بھی اسلام کے احکام کو چھوڑ کر (جو کہ سراسر رحمت ہیں) جاہلیت کی طرف دوڑ رہی ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button