زندگی کا ہر قدم حقائق کی بنیاد پر اٹھائیں

شہد کی مکھیاں اپنا چھتہ جہاں بناتی ہیں، اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پھولوں کا مقام اس مقام سے کئی میل دور ہوتا ہے۔ ایک پھول میں بہت تھوڑی مقدار رس کی ہوتی ہے۔ اس لیے بھی اس کو بہت دور دور تک جانا ہوتا ہے تاکہ بہت سے پھولوں کا رس چوس کر ضروری مقدار حاصل کر سکے۔

شہد جمع کرنے والی مکھی سارا دن اڑانیں بھرتی ہے تاکہ وہ ایک ایک پھول کا رس نکالے اور اس کو لا کر اپنے چھتے میں جمع کرے۔ مشاہدہ سے معلوم ہوا کہ شہد کی مکھی صبح جب اپنے پہلے سفر پر نکلتی ہے تو اندھیرے میں روانہ ہوتی ہے۔ مگر شام کو جب پھولوں کے مقام سے وہ اپنی آخری باری کے لیے چلتی ہے تو اس کا یہ سفر نسبتاً اجالے میں ہوتا ہے۔

پہلی باری کے لیے اندھیرے میں چلنا اور آخر ی باری کے لیے اجالے میں سفر شروع کرنا کیونکر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ دونوں وقتوں کا فرق ہے۔ صبح کے وقت سفر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اندھیرے سے اجالے کی طرف جا رہی ہے ۔ جب کہ شام کے وقت سفر کا مطلب اجالے سے اندھیرے کی طرف جانا ہے۔

شہد کی مکھی وقت کے اس فرق کو ملحوظ رکھتی ہے اور اس کی پوری طرح رعایت کرتی ہے۔ شہد کی مکھی اپنے لمبے سفر کو چونکہ سورج کی روشنی میں ہی صحیح انجام دے سکتی ہے۔ اندھیرے میں اس کا امکان رہتا ہے کہ وہ بھٹک جائے اور اپنی منزل پر نہ پہنچ پائے۔ اس لیے صبح کو وہ اپنی پہلی باری اندھیرے میں شروع کر دیتی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ اگلے لمحات اجالے کے ہوں گے۔ اس کے برعکس شام کو اپنی آخری باری کے لیے وہ اجالا رہتے ہوئے چل پڑتی ہے، کیونکہ وہ جانتی ہے کہ جتنی دیر ہو گی اتنا ہی اندھیرا بڑھتا چلا جائے گا۔

یہ قدرت کا سبق ہے۔ قدرت ہمیں بتاتی ہے کہ زندگی میں ہمارا ہر قدم حقائق کی بنیاد پر اٹھنا چاہیے نہ کہ خوش فہمیوں اور موہوم امیدوں کی بنیاد پر۔ آنے والے لمحات کبھی ’’اندھیرے‘‘ کے لمحات ہوتے ہیں اور کبھی ’’اجالے‘‘ کے، اگر اس فرق کی رعایت نہ کی جائے اور آنے والے لمحا ت کا لحاظ کیے بغیر بے خبری میں سفر شروع کر دیا جائے تو آنے والا لمحہ ہماری رعایت نہیں کرے گا۔ وہ اپنے نظام کے تحت آئے گا نہ کہ ہماری خوش فہمیوں کے تحت۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ کبھی ہم سمجھیں گے کہ ہم روشن مستقبل اور شاندار انجام کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ اگلا لمحہ جب آئے گا تو معلوم ہو گا کہ ہم صرف اندھیروں کی طرف بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button