شوق نے سب سے بڑا خطاط بنا دیا

استاد یوسف دہلوی مشہور خوشنویس تھے۔ ان کو فن خطاطی پر غیر معمولی قدرت حاصل تھی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بار جلی خط کا مقابلہ ہوا۔جمنا کے کنارے ریت کے میدان میں بہت سے خطاط جمع ہوئے۔ استاد یوسف آئے تو ان کے ہاتھ میں بانس کا ایک بڑا ٹکڑا تھا۔

انہوں نے بانس سے ریت کے اوپر لکھنا شروع کیا۔ الف سے ش تک پہنچے تھے کہ تقریباً ایک فرلانگ کا فاصلہ ہو گیا۔ لوگوں نے کہا کہ بس کیجئے۔ استاد یوسف نے کہا میں نے جو لکھا ہے اس میں رنگ بھر دوں اور پھر ہوائی جہاز سے چھوٹے سائز میں اس کا فوٹو لے لو مجھے یقین ہے کہ اس میں وہی خط رہے گا جو میرا اصل خط ہے۔ اس کے بعد کسی اور کو اپنا فن پیش کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔

تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے آئے تھے۔ یہاں شاہ سعود کی آمد پر ان کو ایک محراب کا مضمون لکھنے کے لیے دیا گیا ۔ استقبال کی تیاریوں کا بچشم خود معائنہ کرنے کے لیے گورنر جنرل آئے۔ اس دوران انہوں نے استاد یوسف کا لکھا ہوا محراب بھی دیکھا ۔ اس کے شاندار خط کو دیکھ کر وہ حیران رہ گئے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کس خطاط نے لکھا ہے۔ چنانچہ استاد یوسف کو بلایا گیا۔ گورنر جنرل نے ان کے کام کی تعریف کی اور پوچھا کہ اس کو لکھنے میں آپ کا کتنا وقت لگا ہے۔ استاد یوسف نے کہا کہ سات دن۔ گورنر جنرل نے فوراً اپنے سیکرٹری کو حکم دیا کہ استاد کی ان خدمات کے اعتراف میں سات ہزار روپے پیش کر دو۔ چنانچہ اسی وقت ان کو اتنی رقم کا چیک دے دیا گیا۔

استاد یوسف سے ایک شخص نے پوچھا کہ خوش نویسی کا فن آپ نے کس استاد سے سیکھا ہے؟ انہوں نے کہا کہ کسی سے نہیں۔ ان کے والد خود ایک مشہور خوش نویس تھے، مگر انہوں نے اپنے والد کی شاگردی کبھی اختیار نہیں کی۔

پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ میں نے خوش نویسی کا فن لال قلعہ سے سیکھا ہے۔ لال قلعہ میں مغل دور کے استادوں کی وصلیاں (تختیاں) رکھی ہوئی ہیں۔ ان تختیوں میں قطعات لکھے ہوئے ہیں جو فن خطاطی کے شاہکار نمونے ہیں۔ استادوںکی وصلیاں دس سال تک لال قلعہ جا کر دیکھتے رہے۔

ہر روز ایک قطعہ اپنے ذہن میں بٹھا کر واپس آتے۔ اس کو اپنے قلم سے بار بار لکھتے اور پھر اگلے دن اپنا لکھا ہوا کاغذ لے کر لال قلعہ جاتے۔ وہاں کی محفوظ تختی سے اپنے لکھے ہوئے کو ملاتے اور اس طرح مقابلہ کر کے اپنی غلطیوں کی اصلاح کرتے۔

اس طرح مسلسل دس سال تک ہر روز لال قلعہ کی تختیوں سے وہ خود اپنی اصلاح لیتے رہے اور ان کو دیکھ دیکھ کر مشق کرتے رہے۔ یہی دس سالہ جدوجہد تھی جس نے انہیں استاد یوسف بنا دیا۔ اگر آدمی کے اندر شوق ہو تو نہ پیسہ کی ضرورت ہے اور نہ استاد کی، نہ کسی اور چیز کی۔ اس کا شوق ہی اس کے لیے ہر چیز کا بدل بن جائے گا۔ وہ بغیر کسی چیز کے سب کچھ حاصل کر لے گا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button