عمران خان کے فینز اور ووٹ بینک کا تعلق

اقتدار سے ہٹائے جانے کے بعد عمران خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے ایک سروے کے مطابق عمران خان کی مقبولیت سات فیصد سے ستائیس فیصد تک جا پہنچی ہے۔ بادی النظر میں دیکھا جائے تو اس دعوے سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے، کیونکہ جب عمران خان وزیر اعظم بنے تو وہ کارکنان سے کٹ کر رہ گئے تھے اب ان کے چاہنے والے عمران خان کو اپنے درمیان دیکھنا چاہتے ہیں، یہ فینز کی نفسیات ہیں۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان کی پارٹی اکثریت ان کے فینز کی ہے جو لبرل طبقہ کہلاتا ہے، یوں فینز کے اعتبار سے دیکھا جائے تو عمران خان کی مقبولیت میں واقعی اضافہ ہوا ہے اور ان کے جلسوں میں فینز کی شرکت بھی اسی امر کی عکاسی کر رہی ہے۔ تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ اقتدار جانے کے بعد کیا ان کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوا ہے؟ یہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کیلئے ووٹ بینک نہایت اہمیت رکھتا ہے اگر کسی جماعت میں نئے ووٹرز کی صورت اس کے ووٹ بینک میں اضافہ نہ ہو رہا ہو تو اس کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ عوام میں اس کی مقبولیت میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

موجودہ صورتحال میں اگر عمران خان کے ساتھ ان کے فینز کھڑے ہیں تو یہ ووٹ بینک کے لحاظ سے فکر کی بات ہے، اگر ان فینز کی حمایت پر مقبولیت میں اضافے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے جو برسوں سے تحریک انصاف کے ساتھ کھڑے تھے تو پھر اپنے آپ کو مطمئن کرنے والی بات ہے، آثار سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عمران خان کی مقبولیت میں اس اعتبار سے اضافہ ہوا ہے کہ وہ وزیر اعظم ہاؤس اور سکیورٹی کی پابندیوں کو ختم کر کے آج اپنے کارکنان کے درمیان موجود ہیں اور بلاشبہ فینز کی بڑی تعداد ان کے ارد گرد جمع ہے اور وہ شہروں میں بڑے بڑے جلسے بھی کر رہے ہیں لیکن اس میں کوئی نیا ووٹر نہیں ہے، بلکہ دو طرح کے ووٹرز ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔ ایک وہ خاموش ووٹر جو باقاعدہ کسی جماعت کا حصہ نہیں ہوتا وہ ہر الیکشن سے قبل اپنی سوچ کے مطابق کسی جماعت کی حمایت کا فیصلہ کر کے اس سے توقعات باندھ کر اسے ووٹ دینے کا ارادہ کر لیتا ہے۔

اس طرح کا ووٹرز کارکردگی دیکھتا ہے اور اچھی کارکردگی پر حمایت جبکہ بری کارکردگی پر دوسرے آپشن کو اختیار کر لیتا ہے۔ تحریک انصاف کو 2018ء کے انتخابات میں اسی خاموش اکثریت کی بدولت کامیابی حاصل ہوئی تھی، تاہم چار سالہ حکومت کے بعد سے خاموش اکثریت اپنی رائے بدل چکی ہے، کیونکہ تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے، قوی امکانات ہیں کہ آئندہ انتخابات میں خاموش اکثریت تحریک انصاف کی حمایت سے دستبردار ہو جائے گی۔

دوسرے یہ کہ تحریک انصاف کی حمایت کرنے والوں میں بڑی تعداد مذہبی حلقوں کی بھی تھی جو کسی نہ کسی اعتبار سے اپنی قیادت سے شکوہ کناں تھے جس کا فائدہ تحریک انصاف اٹھا رہی تھی تاہم جب عمران خان نے مذہبی رہنماؤں کے خلاف نازیبا زبان استعمال کرنی شروع کی تو مذہبی طبقے نے بھی عمران خان کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لئے، کیونکہ بدکلامی کی کوئی بھی حمایت نہیں کرتا ہے۔

اب تحریک انصاف کی کل جمع پونجی عمران خان کے فینز ہیں جن کے ساتھ عمران خان اگلے الیکشن میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی مزاحمتی رویہ اپنائے ہوئے ہے یہ رویہ بھی اس کے ووٹ بینک میں کمی کا باعث بنے گا، کیونکہ ہمارے ہاں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اسٹیبلشمنٹ کی مخاصمت کے ساتھ الیکشن میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتی۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اگر عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ مخالف رویہ ترک نہ کیا تو تحریک انصاف کو آئندہ الیکشن میں پورے ملک سے امیدوار ہی نہیںملیں گے۔

ان حقائق کے بعد تحریک انصاف کی طرف سے محض بڑے جلسوں کو جواز بنا کر دعویٰ کرنا کہ ملک کے بائیس کروڑ عوام عمران خان کے ساتھ ہیں یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینے والی بات ہے، رہا یہ سوال کہ جب تحریک انصاف کا ووٹ بینک کم ہوا ہے تو عمران خان فوری طور پر نئے انتخابات کیوں چاہتے ہیں؟

عمران خان نئے انتخابات کا مطالبہ چند وجوہ کی بنا پر کر رہے ہیں، سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ اگر مخلوط حکومت کو ایک سال کام کرنے کا موقع مل گیا تو اس عرصے کے دوران تحریک انصاف کو انتقامی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ممکن ہے تحریک انصاف کے کئی رہنما جیل میں بھی چلے جائیں۔عمران خان نئے انتخابات کا مطالبہ کر کے متوقع گرفتاریوں سے بچنا چاہتے ہیں۔

اسی طرح یہ بھی واضح ہے کہ عمران خان کے پاس اب کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے جبکہ نئے الیکشن میں انہیں ایک امید دکھائی دیتی ہے کہ لوگ ان کے بیانئے پر یقین کر کے انہیں سپورٹ کریں گے۔ دیکھا جائے تو عمران خان کا سیاسی مستقبل امریکہ مخالف بیانئے پر مرکوز ہے، یہ بیانیہ کس قدر کارگر ثابت ہوتا ہے آئندہ انتخابات میں انہیں اس کا ثمر مل جائے گا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button