توہین رسالت قانون خاتمے کیلئے شیریں مزاری کا خط
سابق وفاقی وزیر اور پاکستان تحریک انصاف کی رہنماء شیریں مزاری ریاست پاکستان کے خلاف شکایت لے کر عالمی اداروں تک پہنچ گئی ہیں، عالمی اداروں کو انہوں نے شکایت لگائی ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت قانون کا غلط استعمال ہو رہاہے عالمی طاقتیں پہلے ہی اس قانون کے ختم کرنے کے درپے ہیں، اب پی ٹی آئی نے انہیں ایک جواز فراہم کر دیا ہے کہ اس شکایت کو بنیاد بنا کر پاکستان پر دبائو ڈالا جائے کہ توہین رسالت کے قانون کو ختم کیا جائے۔
یہ ہے اس ایجنڈے کا ایک حصہ جو پی ٹی آئی لے کر برسراقتدار آئی تھی مگر بادل نخواستہ وہ اس کی تکمیل نہیں کر پائی تھی لیکن شیریں مزاری اس ایجنڈے سے غافل نہیں ہوئیں انہوں نے موقع ملتے ہی واردات کرڈالی۔ شیریں مزاری کا یہ خط دراصل پاکستان کے خلاف ایک مقدمے کی بنیاد ہے کیوں کہ پہلی مرتبہ کسی سیاسی جماعت اور سابق حکمران جماعت کی ایک رہنماء کی طرف سے یہ مقدمہ قائم کیا گیا ہے اگرچہ اس سے پہلے بھی اس طرح کے خطوط لکھے جاتے رہے ہیں مگر ان کی اتنی اہمیت نہیں تھی۔ اس خط سے یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ پاکستان اور توہین رسالت قانون کے خلاف یہ مقدمہ انہوں نے عمران نیازی کی رضامندی سے کیا ہے۔
عالمی سازش اور مداخلت کا ڈھنڈورہ پیٹنے والوں نے ازخود عالمی طاقتوں کو پاکستان میں مداخلت کی دعوت دی ہے۔ عمران نیازی اب تک اس پر خاموش ہیں اور یہ خاموشی ان کی رضامندی کی دلیل ہے عمران نیازی کا یہ وطیرہ ہے کہ وہ مذموم مقاصد کے لیے اپنے کارندوں کو آگے کرتا ہے اور خود خاموشی کی چادر اوڑھ لیتا ہے بلکہ شیشے کے پیچھے بیٹھ کر تماشا دیکھتا ہے۔
یہی کچھ عمران نیازی نے مدینہ منورہ میں کروایا اپنے کارندوں کے ذریعے دربار رسول اور مسجد نبوی کا تقدس پامال کروایا مذموم نعرے بازی کروائی اور منصوبہ بندی سے مقدس مقامات کو اپنی گندی سیاست سے آلودہ کیا حسب معمول عمران نیازی نے اس پر خاموشی اختیار کیے رکھی اور عوامی دبائو کے باوجود واقعہ کی مذمت کرنے سے اجتناب کیا۔
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کا واقعہ پوری منصوبہ بندی سے کیا گیا ہے واقعہ کے عینی شاہد پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین علامہ طاہر محمود اشرفی نے بھی اس کی تصدیق کی ہے کہ مسجد نبوی کی توہین باقاعدہ منصوبہ بندی سے کی گئی بلکہ مسجد نبوی میں ہلڑبازی صرف ایک مقام پرنہیں ہوئی، فسادی گروہ دو سے تین مقامات پر موجود تھے جنہوں نے ایک پلان کے تحت یہ سب کچھ کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جو کچھ مسجد نبوی میں کیا گیا وہ سو سالہ تاریخ میں نہیں ہوا۔
علامہ طاہر اشرفی کا شمار عمران نیازی کے قریبی دوستوں میں ہوتا ہے انہوں نے بھرپور طریقے سے عمران نیازی اور ان کی حکومت کا دفاع کیا مگر مسجدنبوی کے واقعہ پر وہ بھی خاموش نہ رہ سکے اس سے اندازہ لگائیں کہ تحریک انصاف کی قیادت اقتدار سے محرومی کے بعد کہاں تک جا سکتی ہے۔
یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ پی ٹی آئی رہنمائوں نے مسجد نبوی کی توہین پر فتح کے شادیانے بجائے، سابق وزیر داخلہ شیخ رشید کے بھتیجے اور ممبر قومی اسمبلی شیخ راشد شفیق نے مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر اسے عمران خان کی فتح قرار دیا، پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ اور ان کے حامیوں نے اس اقدام کی حمایت میں من گھڑت جواز تراشے، اور تاحال وہ اس مشن پر لگے ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے اس واقعہ کی مذمت تک نہیں کی گئی جس پر قانون حرکت میں آیا تو شیریں مزاری اپنی شکایت لے کر عالمی اداروں کے پاس پہنچ گئیں حالانکہ شیریں مزاری کا نام ایسے کسی مقدمے میں درج نہیں ہے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مسجد نبوی کا واقعہ منصوبہ بندی سے نہیں ہوا بلکہ عوامی ردعمل تھا تو ان سے سوال ہے کہ حکومتی وفد نے اگلے روز مکہ مکرمہ میں عمرہ کی سعادت حاصل کی، حرم مکی میں بھی پاکستانی موجود تھے وہاں اس طرح کی نعرے بازی کیوں نہ ہوئی؟ یہ عمران نیازی کی بدنصیبی ہے کہ اس نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد رمضان کی مقدس راتوں کو ناچ گانوں کی نذر کر دیا اور پورا رمضان یہ طوفان بدتمیزی چلتا رہا اور جب ستائیسویں رمضان کو شب دعا کا ناٹک رچایا تو اس رات ایک طرف مسجد نبوی کی توہین کروائی اور دوسری طرف بنی گالہ میں منعقدہ محفل میں مولانا طارق جمیل اور عمران نیازی کے سامنے نجم شیراز نے شب قدر کی توہین کر ڈالی، مگر اس پر عمران نیازی اور مولانا طارق جمیل خاموش رہے۔
سوشل میڈیا پریہ ویڈیو موجود ہے جس میں نجم شیراز کہہ رہا ہے کہ ہمیں ایسے لیڈر کی قدر ہو جائے جس نے قوم کو آزادی کی قدر کروا دی تو ہمیں شب قدر نہ بھی ملی تو ہماری آنے والی نسلیں سنبھل جائیں گی۔ اندازہ لگائیں کہ پستی کا کیا عالم ہے۔ عمران نیازی کے دور اقتدار میں بارہا یہ کوششیں کی گئیں کہ کسی نہ کسی طرح قانون توہین رسالت کو ختم یا کم ازکم اسے غیر مؤثرکیا جائے۔
یہی وجہ ہے کہ عمران نیازی نے اپنے دورحکومت میں توہین رسالت کی ملزمہ آسیہ مسیح سمیت آدھے درجن سے زائد ملزمان کو رہا کروا کر بیرون ملک بھیجا، مغربی آقائوں کو راضی کرنے کے لیے قومی اقلیتی کمیشن میں قادیانیوں کو شامل کرنے کی کوشش کی، ختم نبوت حلف نامہ تبدیل کرنے کی کوشش کی، اقتصادی کونسل میں قادیانی مشیر بنانے کا اقدام کیا مگر عالمی طاقتیں راضی نہیں ہوئیں۔
گزشتہ سال مئی کے مہینے میں ہی یورپی پارلیمنٹ نے ایک قرارداد کے ذریعے یہ مطالبہ کیا کہ پاکستان توہین رسالت کے قانون کی دفعات 295 سی اور بی کو ختم کرے۔ اس قرارداد میں حکومت پاکستان سے انسداد دہشت گردی کے 1997 کے قانون میں بھی ترمیم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ توہین رسالت کے مقدمات کی سماعت انسداد دہشت گردی کی عدالتوں میں نہ کی جائے اور توہین رسالت کے مقدمات میں ملزمان کو ضمانتیں مل سکیں۔
یورپی پارلیمنٹ کی بے باکی کا اندازہ لگائیں کہ توہین رسالت کے مقدمے میں گرفتار شفقت ایمانوئیل اور شگفتہ کوثر کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا مگر حیرت کی بات ہے کہ جب یورپی یونین یہ مطالبہ کر رہی تھی تو عمران نیازی کو اس وقت غیر ملکی سازش اور مداخلت نظر نہیں آ رہی تھی؟ نہ ملکی خود مختاری کا دورہ پڑا، کیوں کہ عمران نیازی اور عالمی طاقتوں کا ایجنڈہ ایک تھا اور ایک ہے۔
توہین رسالت کے قانون کے خلاف سازشیں تو پہلے دن سے ہو رہی ہیں مگر یہ پہلا موقع ہے کہ کسی سیاسی رہنماء کی طرف سے عالمی اداروں کو اس طرح کا خط تحریر کیا گیا ہے اس کے کیا مضمرات ہوں گے، علامہ طاہر اشرفی نے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیریں مزاری کا اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کو خط پاکستان کیلئے مشکلات کا سبب بنے گا، اگر کسی جگہ پر توہین مذہب و توہین ناموس رسالت کا قانون غلط استعمال ہوا ہے تو پاکستان میں عدالتیں اور ادارے موجود ہیں، تحریک انصاف کی قیادت کو اس سے رجوع کرنا چاہیے، شیریں مزاری کے خط سے قانون توہین رسالت و توہین مذہب مخالف قوتوں کو تقویت ملے گی۔
علامہ طاہراشرفی پی ٹی آئی کے دور حکومت میں کم ازکم اس محاذ پر بھرپور خدمات سر انجام دی ہیں یہی وجہ ہے کہ متحدہ علماء بورڈ کے پلیٹ فارم سے انہوں نے دوسو کے قریب کیسز نمٹائے۔ عمران نیازی لاکھ یہ بتائیں کہ انہوں نے اقوام متحدہ میں اسلاموفوبیا کے خلاف تقریر کی ہے مگر عملی کردار یہ ہے کہ ان کی جماعت کی اہم رہنماء توہین رسالت قانون کے خلاف سرگرم ہیں اگرچہ شیریںمزاری پی ٹی آئی کے دور میں حکومت میں بھی اس طرح کے اقدامات کرتی رہیں کہ انہیں کوئی روک ٹوک نہیں تھی، جبری مذہب تبدیلی کابل، اٹھارہ سال سے کم عمری کی شادی کے غیر اسلامی بل کی وہ محرک رہی ہیں۔
مگرپارلیمنٹ میں وہ ناکام رہیں کیوںکہ ممبران اسمبلی نے ان غیر اسلامی اور غیر آئینی بلوں کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے عزائم کی تکمیل نہیں کر سکیں لیکن حکومت سے باہر ہوتے ہی وہ کھل کر سامنے آ گئی ہیں۔ جمعیت علماء اسلام پاکستان کے ترجمان اسلم غوری نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ پی ٹی آئی ناموس رسالت کے قانون 295C کے خلاف مراسلہ لکھ کر اپنی مذہب دشمنی کے ثبوت پیش کر کے عالمی برادری کے سامنے اپنی نوکری پکی کر رہی ہے۔
پی ٹی آئی کا یہ اقدام یہودی ایجنٹ ہونے کا واضح ثبوت ہے۔ پاکستانی عوام دیکھ لیں کہ یہ کس کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، عمران نیازی اور اس کی حواریوں کے اس مراسلے کا اصل مقصد قادیانیوں کے لئے پوشیدہ ہمدردی کا اظہار ہے۔ ناموس رسالت اور ختم نبوت کے لئے اپنی جانوں کو بھی قربان کر دیں گے۔