سیاسی اختلاف رائے اور ہماری سماجی پستی

میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے زندگی میں باشعور اور دکھ درد بانٹنے والے بہت اچھے دوست ملے۔ ہر رنگ و نسل اور مذہب سے تعلق رکھنے والے احباب میری فرینڈ لسٹ کی زینت ہیں۔ ہم خوشی و غمی کے مواقع پر ملتے ہیں اور ایک دوسرے کے درد کو بانٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے کبھی کسی دوست سے کوئی شکوہ نہیں رہا ،کیونکہ ہم اختلاف رائے کو ذاتی مسئلہ نہیں سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرینڈ لسٹ میں مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلزپارٹی، تحریک انصاف، جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی سمیت ہر سیاسی جماعت کے احباب شامل ہیں۔ جن کے ساتھ نجی محفلوں میں خوشگوار ملاقاتیں رہتی ہیں، کئی ایسے دوست ہیں جن کے ساتھ بالمشافہ ملاقات تو نہیں مگر فیس بک پر شائستہ انداز سے گفتگو ہوتی ہے جس سے ان کی ذہنی وسعت اور شائستگی کا اندازہ ہوتا ہے، مجھے ایسے احباب کی دوستی پر فخر ہے۔

اسلامی فکر کا فروغ میرے مقاصد میں شامل ہے، اس حوالے سے میں اعتدال کا راستہ اختیار کرتا ہوں اور دوسروں کیلئے گنجائش رکھتا ہوں جو لوگ میری سوچ سے اتفاق نہیں رکھتے ہیں میں انہیں پورا احترام دیتا ہوں اور ان سے توقع رکھتا ہوں کہ جس طرح وہ اپنی سوچ اور راستے کو درست سمجھتے ہیں اسی طرح میرے لئے بھی گنجائش پیدا کریں۔

ہمارے بہت سے سینئر دوست بدکلامی کے جواب میں سخت ردعمل دیتے ہیں اور فیس بک پر باقاعدہ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں کئی تو سکرین شارٹ شیئر کرکے سارا معاملہ عیاں کر دیتے ہیں اور رائے سے اختلاف کرنے والے کو فوری بلاک کرتے ہیں۔ میرا معاملہ ذرا مختلف ہے میں بہت حد تک بدکلامی کو برداشت کر جاتا ہوں، بلاک کرنے کی طرف نہیں جاتا، بسا اوقات اپنا مؤقف پیش کر کے دوسروں کو بولنے اور لکھنے کا موقع دیتا ہوں۔

میں ان دوستوں کیلئے بہت گنجائش رکھتا ہوں جن کے ساتھ باقاعدہ ملنا ملانا ہوتا ہے، ایسے دوستوں کی کڑوی باتوں کو بھی برداشت کر جاتا ہوں، کیونکہ میرے نزدیک ذاتی تعلق سیاسی تعلق پر مقدم ہے۔

سیاسی اختلاف کی بنیاد پر کسی کو برا بھلا کہنے کے حق میں نہیں ہوں اور میں نے کبھی سیاستدانوں کو اس قابل نہیں سمجھا کہ ان کی خاطر قابل احترام لوگوں کے ساتھ لڑائی جھگڑا کیا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم جن سیاستدانوں کیلئے لڑ جھگڑ رہے ہوتے ہیں انہیں ہماری کوئی فکر نہیں ہوتی ہے جب اہل سیاست کو ہماری کوئی فکر ہی نہیں ہے تو پھر ہم لوگوں کے ساتھ دشمنی کیوں مول لیں؟

میں کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت اپنا جمہوری حق سمجھتے ہوئے کرتا ہوں، یہ حق مجھے اپنی سوچ کے مطابق قیادت کے چناؤ کا اختیار دیتا ہے۔ ایک جماعت کی حمایت کر کے دوسری جماعت کے ساتھ دشمنی اپنا لینا قطعی جمہوریت نہیں ہے جو لوگ سیاسی اختلاف کی بنیاد پر لڑائی جھگڑا کر رہے ہیں میرے نزدیک وہ جمہوریت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ جمہوریت کا حسن اسی میں ہے کہ ہر بندہ اپنی سوچ کا اظہار کرے اگر سبھی لوگ ایک ہی جماعت کی حمایت کرنے لگیں تو اسے آمریت یا بادشاہت کہا جائے گا۔

میرے لئے تکلیف دہ امر وہ ہوتا ہے جب قریبی دوست کی بجائے دور پار کا کوئی فیس بکی دوست جو سالوں پہلے فرینڈ لسٹ میں جگہ بنانے میں کامیاب ہو گیا مگر سوچ و فکر اور شائستگی سے عاری ہونے کی وجہ سے راہ چلتے چند جملے اچھال جاتا ہے، ظاہر ہے بدکلامی کا جواب بدکلامی سے ہی دیا جا سکتا ہے جو مجھ جیسے شخص سے نہیں ہو سکتا، کیونکہ ایسے افراد کو جواب دینے کا مطلب یہ ہے کہ بدکلامی جیسے بے ہودہ موضوع پر باقاعدہ مکالمہ کرنا۔ یہ جانتے ہوئے بھی اگر کوئی شخص اس گوبر میں ہاتھ ڈالتا ہے تو بلڈ پریشر ہائی ہو گا اور بدکلامی کے جواب میں وہ خود بھی مغلظات کی بوچھاڑ کرے گا۔

میں یہاں کسی ایک سیاسی جماعت کا نام نہیں لوں گاکیونکہ کم و بیش سبھی سیاسی جماعتوں کے قائدین و کارکنان ایک ہی راستے پر چل رہے ہیں۔ حیرت ہے جنہیں ہم گزشتہ چند سالوں سے دانشور تصور کرتے رہے ہیں وہ باقاعدہ سیاسی جماعتوں کے ترجمان بن چکے ہیں اور شائستگی کو پس پشت ڈال کر میدان میں اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں۔

یہ درست ہے کہ مکمل طور پر غیر جانبدار رہنا کسی کیلئے بھی آسان نہیں ہوتا ہے مگر کسی سیاسی جماعت کے گوبر کو زعفران کیسے کہا جا سکتا ہے؟ اگر کسی نے یہ ٹھان لیا ہے کہ وہ اپنی پسند کی جماعت کے ہر سیاہ کو سفید کہے گا تو اپنا شوق پورا کرے مگر دوسروں کو اس فعل میں شامل کیوں کرتا ہے۔

ایک بڑی سیاسی جماعت سے وابستہ ایک شخص نے مجھ سے کہا کہ آپ فلاں جماعت کی حمایت کرتے ہیں؟ میں نے ہاں میں جواب دیا تو اس نے آنکھوں سے ایسا تاثر دیا جیسے میں نے اس جماعت کی حمایت کر کے غلط کام کیا ہے۔ عرض کیا کہ یہ میرا جمہوری حق ہے۔ لیکن اسے یہ بات سمجھ نہیں آئی اور طنزیہ قہقہے لگائے۔ میں توقع کر رہا تھا کہ وہ کوئی دلیل دے گا مگر اس کے پاس قہقہے کے سوا بولنے کیلئے کچھ بھی نہ تھا۔ یہاں سے ایسے افراد کی ذہنی پستی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

سو دوستو! آپ جس سیاسی جماعت کو اپنی سوچ کے مطابق درست سمجھتے ہیں اس کی حمایت جاری رکھیں مگر دوسروں کو بھی ان کا جمہوری حق دیں۔ جب ہم دوسروں کو ان کا جمہوری حق دیں گے تو یقین جانیں ہم سیاسی اختلاف کے باوجود ایک دوسرے کا احترام کر رہے ہوں گے۔ ایسی صورت میں اگرچہ ہماری حمایت یافتہ سیاسی جماعت الیکشن میں ہارے جائے مگر ہم سماجی طور پر بلند ہوں گے۔ میں اسی سماجی بلندی کیلئے کوشاں ہوں اور آپ؟

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button