غلاف کعبہ کی الحساء سے کیا نسبت ہے؟

چونکہ میں نے الحساء شہر میں چند دن گزارے تو اس شہر پر ایک مکمل سیریز لکھنے کا ارادہ ہے، الحساء شہر کو غلاف کعبہ سے بھی مخصوص نسبت رہی ہے۔ حجاز کی آج کی موجودہ سعودی ریاست میں تو مکہ میں آج باقاعدہ غلاف کعبہ جسے کسوہ کہا جاتا ہے، اس کی مکہ میں باقاعدہ تیاری کے لئے ایک مخصوص کمپلیکس ہے، لیکن سعودی ریاست کے وجود سے کچھ عرصہ پہلے تک غلاف کعبہ کسوہ آٹھ بار الاحساء میں ایک کچے گھرمیں تیار کیا جاتا رہا تھا۔ جو اس کے بعد ۱۳۴۳ ھجری یعنی آج سے سو برس قبل اس کی ریاستی کے عمل کو الحساء سے مکہ مکرمہ سعودی ریاست نے تبدیل کیا تھا۔

سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز نے غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے مکہ مکرمہ میں ۱۳۴۶ آجری یعنی 1926ء میں شاہ عبدالعزیز آل سعود نے خانہ کعبہ کے کسوہ کی تیاری کے لیے مختص ُام القریٰ کارخانے کی تعمیر کا فرمان جاری کیا تھا، یہ پہلا خصوصی کارخانہ تھا جو مسجد الحرام کے قریب محلہ اجیاد میں لگایا گیا جسے غلاف کعبہ تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی اور یہیں پر پہلا غلاف سعودی ریاست کے قیام کے بعد بنایا گیا تھا، بعد ازاں اس کارخانے کو مکہ میں ہی نئے مقام ام الجود محلے میں منتقل کردیا گیا۔ یہ نئی فیکڑی جدید آلات سے لیس تھی۔ اور حالیہ سعودی حکمران شاہ سلمان نےغلاف کعبہ فیکٹری کا نام کنگ عبدالعزیز کمپلیکس برائے کسوہ (غلاف کعبہ) رکھا تھا۔

غلاف کعبہ کی تاریخ

خانہ کعبہ کے غلاف کو تبدیل کرنے کی ایک پرانی معروف تاریخ ہے۔ کعبے کو زمانہ قبل از اسلام سے ہی میں غلاف سے ڈھانپا گیا تھا اور پھر یہ سلسلہ اسلام کے آنے کے بعد سے آج تک جاری ہے۔ زمانہ قبل از اسلام میں کعبے کا غلاف کسوہ کسی خاص رنگ یا ڈیزائن کا نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ کئی رنگوں پر مشتمل ہوتا تھا اور چمڑے اور کپڑے سے بنا ہوتا تھا۔ مشہور مورخ الواقدی نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ زمانہ جاہلیت میں بیت اللہ کو چمڑوں کے غلاف سے ڈھانپا گیا۔

تاریخی کتب میں کعبہ کو پہلی بار غلاف کے حوالے سے بہت زیادہ روایات موجود ہیں، کچھ سیرت نگاروں کی نقل کردہ روایت کے مطابق حضرت اسماعیل علیہ السلام نے سب سے پہلے خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا تھا لیکن اس حوالے سے تاریخ کے صفحات میں کوئی خاص تاریخی حوالے نظر نہیں آتے، کچھ تاریخی ریفرنسز میں رسواللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد عدنان کے حوالے سے ایک روایت ملتی ہے کہ عدنان نے سب سے پہلے کعبے کو کسوہ سے آراستہ کیا تھا۔

وہ جگہ جگہ جہاں پر غلاف کعبہ تیار کیا جاتا ہے

مگر معروف روایت کے مطابق جسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں شامل کیا ہے یمن کے بادشاہ تبع الحمیری وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے خانہ کعبہ پر غلاف چڑھایا تھا۔ انہوں یہ کام اسلام کے دور سے قبل کیا تھا، ۔ تبع الحمیری نے ہی کعبے کا دروازہ بنایا تھا اور دروازے کی کنجی تیار کی تھی، بعض تاریخ دانوں نے یہ تذکرہ بھی کیا ہے کہ الحمیری نے کعبہ کو پہلے موٹے کپڑے سے، جس کو الخصف کہا جاتا تھا، اور بعد ازاں معافرسے ڈھانپا۔ معافر یمن کے ایک پرانے شہر کا نام تھا جہاں یہ کپڑا تیار ہوا تھا۔

اس کے بعد غلاف کعبہ کے لیے الوصائل نامی سرخ دھاری دار یمنی کپڑے کا استعما ل کیا گیا. تبع الحمیری نے ہی غلاف کعبہ کے لئے الملا بھی استعمال کیا جو ایک نرم اور باریک کپڑا تھا اس کو ربطہ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔ تاریخی روایات کے مطابق تبع الحمیری کے مرنے کے بعد اس کے جانشینوں نے اس عمل کو اپنا مذہبی فرض اور عزت جانا اور اس عمل کو تسلسل سے قائم رکھا، اس ضمن میں انہوں نے غلاف کعبہ کے لیے چمڑے اور قبطی کپڑے کو استعمال کیا۔ کچھ مورخین کا کہنا ہے کہ ان ادوار میں استعمال ہونے والا غلاف کعبہ تہہ دار تھا جسے ضرورت کے مطابق ہٹایا، سمیٹا اور پھیلایا جا سکتا تھا۔

جہاں تک زمانہ اسلام کا تعلق ہے تو اس میں سب سے پہلے رسول ا ﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے کعبے پر یمنی کپڑے کا غلاف چڑھایا۔ فتح مکہ کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کے دور میں استعمال ہونے والے غلاف کعبہ کو اس وقت تک نہیں ہٹایا تھا جب تک ایک عورت، جو غلاف کعبہ کو معطر کرنے کے لیے دھونی دے رہی تھی، جس سے کپڑے میں آگ لگ گئی۔ اس واقعے کے بعد خانہ کعبہ پر یمنی کپڑے کا غلاف چڑھایا گیا۔

اسلام کی آمد کے بعد خانہ کعبہ پر جو پہلا غلاف چڑھایا گیا وہ قطبی کپڑے سے بنایا گیا تھا جو مصر میں تیار ہونے والا ایک باریک سفید کپڑا تھا۔ سفید رنگ چونکہ ایک اجلا رنگ ہے، اور یہ دیرپا نہیں ہے۔ حاجیوں کے چھونے کی وجہ سے یہ اکثر میلا، گندا اور پھٹنے لگتا تھا۔ یہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا تھا۔ اس لیے اسے سیاہ اور سفید کمخواب اور شملہ کے ساتھ تبدیل کیا گیا جو عرب خیموں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ اسی طرح یہ سلسلہ حضرت ابو بکر ، عمر ، عثمان ، معاویہ اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہمم نے بڑھایا، ان کے ادوار میں سفید اور سرخ دھاری والے یمنی کپڑے کا استعمال کیا گیا، اس کے بعد حجاج بن یوسف نے عبدالملک بن مروان کے دور میں کعبے پر کمخواب کا غلاف چڑھایا۔ مامون الرشید کے دور میں کعبے پر سال میں تین مرتبہ تین مختلف رنگوں کا غلاف چڑھایا جاتا رہا۔

غلاف کعبہ کا ارتقا ہوتا رہا اسے سرخ کمخواب اور مصری کپڑے کے ساتھ تبدیل کیا گیا۔ اسی طرح ایک خاص قسم کا چمڑا اور کچھ سخت قسم کے کپڑے بھی اس مقصد کے لیے استعمال ہوتے رہے، یہ ارتقاء خلافت راشدہ، اموی اور عباسی ادوار میں جب بھی کپڑا دستیاب ہوتا غلاف کعبہ وقتا فوقتا تبدیل ہوتا رہا۔ غلاف کعبہ کے لیے اسفید، سرخ اور سیاہ رنگ استعمال کیا گیا، رنگوں کا انتخاب ہر دور کے مالی وسائل کے لحاظ سے رہا ہے۔ کعبے کو سیاہ رنگ کے کمخواب کا غلاف سب سے پہلے خلیفہ الناصر العباسی (متوفی ۶۲۲ ہجری) نے چڑھایا، اس نے پہلے کعبے کو سبز کمخواب کے غلاف سے آراستہ کیا اور پھر سیاہ کمخواب کا استعمال کیا اور یہ ہی سیاہ رنگ آج تک چلا آ رہا ہے۔ اس طرح مسلمان حکمرانوں نے کعبہ کا خیال رکھنے اورغلاف کعبہ کی ذمہ داری سنبھال لیں، سعودی عرب کے دور سے پہلے مصر میں قائم اسلامی ریاست نے صدیوں تک غلاف کعبہ بھجوانے کا انتظام کیا۔

آج سعودی عرب میں خانہ کعبہ کا بیرونی غلاف یعنی کسوہ ہر سال ۹ ذوالحجہ کو تبدیل کیا جاتا ہے۔ یہ ریشم ، کاٹن ، اور سونے چاندی کے تاروں سے تیار کیا جاتا ہے۔ کسوہ کی بلندی ۱۴ میٹر ہوتی ہے۔ اوپر کے ایک تہائی حصے میں بیلٹ موجود ہوتی ہے جس کی چوڑائی ۹۵ سینٹی میٹر اور لمبائی ۴۷ میٹر ہوتی ہے۔ بیلٹ کے نیچے آیات قرآنی موجود ہوتی ہیں۔ یہ تمام علیحدہ فریموں میں تحریر ہوتی ہیں۔ درمیانی خلاؤں کے بیچ قندیل کی شکل کے اندر ياحي يا قيوم، يا رحمن يارحيم، الحمدلله رب العالمين تحریر ہوتا ہے۔ بیلٹ پر بہت نمایاں طور پر کڑھائی کی جاتی ہے اور یہ چاندی کے تاروں سے بھری ہوتی ہے جس پر سونے کا پانی چڑھا ہوتا ہے اور پورے خانہ کعبہ کا احاطہ کرتی ہے۔

کسوہ میں کعبے کے دروازے کا پردہ شامل ہوتا ہے۔ ریشم سے تیار کیا گیا یہ پردہ ۶.۵ میٹر بلند اور ۳.۵ میٹر چوڑا ہوتا ہے۔ اس پر قرآنی آیات تحریر ہوتی ہیں اور اسلامی نقش ونگار منقش ہوتے ہیں۔ خانہ کعبہ کا کسوہ پانچ حصوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہر حصہ کعبے کی ایک سمت کو ڈھانپ لیتا ہے جب کہ پانچواں حصہ وہ پردہ ہوتا ہے جو کعبے کے دروازے پر لگایا جاتا ہے۔ ان تمام حصوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ملایا گیا ہوتا ہے۔ حج کے موقع پر غلاف کعبہ کو زمین سے اونچا کر دینے کا جو رواج ہے اس کا مقصد بعض حجاج اور معتمرین کی جانب سے غلاف کے کپڑے کو برکت کی نیت سے کاٹ لینے سے بچانا ہوتا ہے۔

غلاف کعبہ کی الحساء سے نسبت

مصر میں اسلامی ریاستوں کے بعد اور سعودی ریاست کے قیام کے وقفے میں سے پہلے امام سعود الکبیر پہلے سعودی مقامی شخص ہیں جنہوں نےحجاز میں آمد کےبعد ۱۲۱۹ ھجری (آج سے 225 برس قبل) میں غلاف کعبہ سلائی کیا۔ اس سے قبل غلاف کعبہ کے لیے مصر سے ہی کپڑا یا ریشم منگوایا جاتا تھا۔ امام سعود الکبیر نے مختلف ممالک کے کپڑے کے کام کرنے والوں سے سے مشورہ کیا اور بالاخر الاحساء میں غلاف کعبہ کی تیاری شروع کروائی۔ الاحساء کو اس لیے اس عظیم کام کے لیے چنا گیا کیوںکہ اس شہر میں سلائی کڑھائی کے روایتی پیشے سے متعلقہ مقامی لوگوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔

یہ اعزاز الحساء کے مقامی شہری عیسیٰ ابن شمس کے کچے گھر کو ملا جہاں پر پہلے غلاف کعبہ کی تیاری شروع کی گئی تھی، عیسی ابن شمس نے اپنے گھر کے باہر لکھ رکھا تھا کہ اس گھر میں غلاف کعبہ کی سلائی کی جاتی ہے۔ غلاف کعبہ کی تیاری 10 علماء کی نگرانی میں کی جاتی تھیاس کے علاوہ الحساء میں ہی الھفوف کے مقام پر بھی دو غلاف کعبہ ایک اور مقامی شہری احمد الدسوقی کی زیر نگرانی تیار کیے گئے۔ الاحساء کے ایک اور شہری

عیسی ابن شمس کے کچے گھر کے دروازے کی تصویر جہاں الحساء شہر میں غلاف کعبہ بنایا جاتا تھا

الشیخ احمد الملا نے بھی اپنا گھر غلاف کعبہ کی تیاری کے لیے وقف کر رکھا تھا۔ مقامی سعودی مورخین کے مطابق الشیخ محمد سعید الملا کے گھر میں غلاف کعبہ کی تیاری دو ماہ میں مکمل کی جاتی تھی اور اس کی سلائی کڑھائی پر 30 ماہرین مامور ہوتے تھے۔ ان تمام ماہر کام کرنے والوں کا تعلق الاحساء کے مشہور پیشہ ور خاندانوں سےتھا۔ الاحساء سے مکہ معظمہ تک غلاف کعبہ اونٹوں پر لایا جاتا تھا اور آنے جانے میں اس وقت 80 دن لگتے تھے۔ یوں الاحساء کو غلاف کعبہ کی تیاری کا شرف حاصل کرنے والے پہلے سعودی شہر کا اعزاز حاصل ہے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button