مسلمانوں میں تخلیقی ذہن کی کمی کے اسباب

یہ سوال یقینًا ہر فکر مند، باشعور اور بالغ نظر انسان کے لیے کسی المیے سے کم نہیں کہ عصر رواں میں امام غزالی و جابر بن حیان جیسے نابغے کیوں پیدا نہیں ہوتے؟ ابن سینا اور الخوارزمی جیسے زرخیز دماغوں سے امت کیوں محروم ہے؟ البیرونی اور عمر خیام جیسے عالی خیال کیوں مفقود ہیں؟ ابن رشد اور الفرغانی جیسے روشن دماغ کیوں ناپید ہیں؟ رازی و فارابی جیسے تخلیق کار دوبارہ کیوں جنم نہیں لیتے؟ ابن الہیثم اور نصیر طوسی جیسے سائنسدانوں کا قحط کیوں ہے؟ ابن خلدون جیسے ہونہار پیدا کرنے سے امت کیوں بانجھ ہوگئی ہے؟

دوسری طرف خدائے لم یزل کا دست قدرت رکھنے والا، ستاروں کو اپنے قدموں سے گرد راہ بنانے والا اور خدا کا آخری پیغام سینے سے لگا کر جاوداں بننے والا مسلمان عنقا ہوگیا ہے۔ اپنے خون جگر سے گل لالہ کی حنا بندی کرنے والا، براہیمی نسبت کا حامل جہانِ نو تعمیر کرنے والا اور صداقت، عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھ کر دنیا کی امامت کرنے والا مسلمان تاریخ کے اوراق میں کھو گیا ہے۔

ہمہ پہلو المیے کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ زمامِ قیادت پکڑ کر قوم کی رہبری کرنے والے کم، جبکہ ذاتی مفادات اور خواہشات کے اسیر زیادہ ہیں۔ نگاہ بلند، سخن دلنواز اور جاں پرسوز رکھنے والے میرِ کارواں کم جبکہ قومی جذبہ و احساس سے عاری نام نہاد گدی نشین زیادہ ہیں۔ اعلیٰ قومی مناصب پر براجمان، دیانت کے تقاضے پورے کرنے والے حکام کم، جبکہ ان ارفع مسندوں کو موروثی جاگیر سمجھنے والے زیادہ ہیں۔ قومی اموال و املاک کو مقدس امانت خیال کرنے والے کم، جبکہ شیرِ مادر سمجھ کر ہضم کر جانے والوں کی تعداد روز افزوں ہوتی جا رہی ہے۔

اس معاملے کا بغور جائزہ اور بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو بلا خوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ اس المیہ کی ڈوری عام محاورے میں اجڈ، گنوار اور ان پڑھ طبقے کی بجائے سر پر اعلی تعلیم کی کلغی سجائے فضلا سے بندھی ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اس بے ثمری کی طول پکڑتی بھیانک رُت کے خاتمے، تعلیمی درسگاہوں کو بارآور بنانے اور ترقی کی قابل رشک معراج کے حصول کے لیے تعلیم کے مقاصد و اہداف کو اولین ترجیح کا درجہ دینا از بس ضروری ہے۔ تعلیم کے ان مقاصد و اہداف سے اعراض و اغماض کا نتیجہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم سینے پر کوئی قابل فخر اعزاز سجانے کی بجائے حصول ِملازمت اور نوکری کے آشوب میں مبتلا ہیں۔ چنانچہ ماہرین تعلیم کی تجویز کے مطابق وہ مقاصد و اہداف حسب ذیل ہیں۔

تعمیر کردار

تعلیم کا اولین مقصد یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ میں مثبت کردار کی شناخت اور تعمیر کی جائے۔ اخلاقی قدروں سے روشناس کیا جائے۔ دیانت، امانت، صداقت، ایثار، خدا خوفی، پابندئ اوقات، کسب حلال، ملک و ملت کی خدمت، خلق خدا پر رحم، قربانی اور ہمدردی جیسے اوصاف کی افادیت، جبکہ خیانت، بددیانتی، آزاد روی، حرام خوری، تن آسانی، رشوت اور اقربا پروری جیسے خصائل بد کے انفرادی اور اجتماعی نقصانات ان کے قلوب و اذہان میں راسخ کیے جائیں۔

خود اعتمادی

بلاشبہ اسٹیج پر مجمع کے سامنے کھڑے ہوکر رٹی رٹائی تقریر سنا دینا، مشق و مزاولت کے بوتے پر ڈرامائی خاکہ کی اداکاری کرنا اور روزمرہ کے رٹے پٹے اسباق کی اساتذہ اور جماعت کے سامنے بلند خوانی کرنا خود اعتمادی ہی سہی، لیکن یہ کام سرکس کا شیر اور پنجرے کا طوطا بھی بخوبی کر سکتا ہے اور اصل میں تعلیم کے ذریعے جو خود اعتمادی مقصود ہے وہ اس سے کہیں ارفع ہے۔

اعلی کردار اور بلند اخلاقی اقدار قلب و ذہن میں راسخ اور پیوست ہو کر عمل میں اس طور ڈھل جائیں، جو کہیں بھی کبھی بھی باد مخالف اور تند و تیز آندھیوں میں متزلزل نہ ہوں۔ ایسی خود اعتمادی جس کے بل پر جھوٹ کے مقابلے میں سچائی، بددیانتی کے مقابلے میں دیانتداری، خیانت کے مقابلے میں امانتداری، حرص و ہوس کے مقابلے میں قناعت، بدعنوانی کے مقابلے میں کسب حلال، خوشامد کے مقابلے میں حق گوئی اور ضمیر فروشی کے مقابلے میں غیرت و حمیت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔

تخلیقی استعداد

طلبہ میں موجود تخلیقی صلاحیتوں کو نمایاں کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجالنے اور نکھارنے کا اہتمام کیا جائے، حوصلہ افزائی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے، تاکہ طلبہ فطرت کی عطا کردہ صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر نت نئے امکانات پر کام کر سکیں۔ نئے انکشاف، نئی تحقیق اور نئی دریافتوں کے لئے ذہنی طور پر تیاری کرسکیں۔ سینکڑوں شعبہ ہائے زندگی میں اپنے ذہنی رجحان کے مطابق تخلیقات سامنے لاسکیں۔ طلبہ کے ذہن کی ایسی آبیاری کی جائے، تاکہ وہ گر گر کر کھڑے اور کھڑے ہوتے ہوتے گرنے کے باوجود کچھ نیا کر گزرنے کے جذبہ و جنون کے حامل بن سکیں۔

اگر ہمارے ارباب بست و کشاد مذکورہ بالا مقاصد کو پیش نظر رکھ کر اپنی منزل متعین کریں، تو کچھ بعید نہیں کہ ماضی جیسے نابغہ ہائے روزگار آج بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم تعلیمی نظام کے خدوخال میں مذکورہ بالا چند ناگزیر تبدیلیاں لے آئیں، تو مسلمان قوم کے عروج اور اقبال کی صبح خوش جمال کو طلوع ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

اس کے برعکس اگر ہم اس گھسے پٹے رسمی تعلیمی نظام میں اصلاحات کا بیڑہ نہیں اٹھائیں گے اور یوں ہی اس کو بے بال و پر کیے رکھنے پر بضد رہیں گے، تو عصر حاضر کی اس بھیڑ میں ہم دیگر اقوام کے ساتھ آبرومندانہ وقار سے کبھی بھی کھڑے نہیں ہو پائیں گے اور نہ ہی ترقی کی معراج طے کرسکیں گے۔ بالآخر ہم لڑھکتے گرتے زوال کی اتھاہ گہرائیوں اور بے نام گھاٹیوں میں رزق خاک ہو جائیں گے۔ نتیجہ یہ ہوگا کہ مؤرخ کا قلم ڈھونڈ تراش کر بھیڑوں کے ریوڑ اور بکریوں کے گلے جیسے نئے استعاروں سے ہمیں تعبیر کرے گا۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button