دعا کی قبولیت کیلئے رزق حلال اور سچ بولیں

اللہ تعالیٰ سچے انسان کو مستجاب الدعوات بنا دیتے ہیں۔ جو عورت جھوٹ بولنا سو فیصد چھوڑ دے تو وہ اس درجے کو پہنچ جاتی ہے کہ جب بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کی زبان سے نکلی ہوئی دعا کو خالی نہیں لوٹایا کرتے۔ چنانچہ ہمارے بزرگوں نے کہا کہ جب انسان کا دل غیر سے خالی ہو، یعنی دل میں کسی غیر کی نفسانی، شیطانی، شہوانی محبت نہ ہو اور پیٹ حرام سے خالی ہو تو ایسے بندے کی زبان سے جب دعا نکلتی ہے اللہ ہمیشہ اس دعا کو قبول کر لیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا قرب پانے کے لیے دو چیزیں بہت اہم ہیں، ایک رزق حلال اور دوسرا سچ گوئی۔ سچ کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کو یاد رکھنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ میں نے کس بندے کو کیا بتایا تھا؟ اس لیے کہ سچ جو ہے وہ تو ہمیشہ ایک ہی حقیقت ہو گی۔ جو شخص جھوٹ بولے گا اس کو یاد رکھنا پڑے گا کہ میں نے کس کو کیا کہا تھا؟ وگرنہ تو ایک بات کے بعد دوسری بات سے اس کا جھوٹ کھل جائے گا۔

سچ میں اللہ تعالیٰ کی رضا

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ ہے کہ وہ غزوہ تبوک میں جانا چاہتے تھے مگر نہ جا سکے۔ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام واپس تشریف لائے۔ جو منافقین رہ گئے تھے انہوں نے بہانے بنا کر جھوٹ بول کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عذر پیش کر دیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔ کعب بن مالک نے صاف بات بتا دی کہ میرے پاس اونٹنیاں بھی دو تھیں، فراغت رزق بھی تھی، بس میں آج کل آج کل کرتا رہا کہ میں پہنچ جاؤں گا، بس سستی ہو گئی۔ بظاہر سچ بولنے پر یہ ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سب لوگوں کو ان سے بات کرنے سے منع کر دیا، ان کو یہ بھی فرمایا کہ تم اپنی بیوی سے بھی بات چیت نہ کرو، ان کے پچاس دن بڑی مشکل سے گزرے لیکن بالآخر اللہ رب العزت نے ان کی توبہ کو قبول کر لیا اور سچ بولنے کی برکت سے اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گئے۔

ایک وکیل کی سچ پر استقامت

ایک وکیل اپنی جوانی میں بہت بولنے والے بندے تھے۔ یونین کے صدر بھی تھے اور ایسے وکیل تھے کہ بحث و مباحثہ کرتے تھے تو حیران کر دیتے تھے، ایک لاکھ روپے ان کی ماہانہ آمدنی تھی۔ اللہ والوں کی صحبت ملی تو ان کے دل میں خیال آیا کہ میں نے اپنی آخرت بھی تو بنانی ہے، لہٰذا آج کے بعد میں جھوٹ نہیں بولوں گا۔ وکیل اور جھوٹ بولنے سے توبہ، یہ کتنی عجیب سی بات ہے! وکیل کو تو ہر قسم کے جھوٹے سچے مقدمے لڑنے پڑتے ہیں، مگر یہ اللہ کا بندہ ایسا تھا کہ اس نے عہد کر لیا کہ میں نے جھوٹ نہیں بولنا۔

بیوی سے مشورہ کیا تو اس نے بھی کہا کہ میں ا س میں آپ کا پورا ساتھ دوں گی اگرچہ مجھے فاقے اٹھانے پڑیں۔ ان کی کچھ زرعی زمین تھی جس پر ان کی دال روٹی چلتی تھی۔ چنانچہ ایک دن دفتر آئے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ میں جھوٹ نہیں بولوں گا اور نہ جھوٹے کا ساتھ دوں گا۔

اب ان کے پاس کون مقدمہ لائے؟ جب بھی کوئی مقدمہ لاتا تو یہ پوچھتے کہ بتاؤ! تم سچے ہو یا جھوٹے؟ تو شروع میں تو ہر بندہ کہتا کہ جی میں سچا ہوں، مگر یہ اگلی بات کرتے کہ اگر مقدمے کی پیروی کے دوران مجھے یہ محسوس ہوا کہ تم جھوٹے ہو تو میں تمہاری پیروی چھوڑ دوں گا۔ اب لوگ پیچھے ہٹ جاتے، چنانچہ آہستہ آہستہ ان کے پاس مقدمات آنے ہی بند ہو گئے، یہ سارا دن جاتے اور اپنے چیمبر میں( دفتر میں) خالی بیٹھ کر واپس آ جاتے۔

تھوڑے دنوں بعد لوگوں نے باتیں بنانی شروع کر دیں، کسی نے ملا کہا، کسی نے مولوی کہا، چونکہ داڑھی جو رکھ لی تھی۔ کسی نے کہا کہ یہ مسجد کے مینڈھے بن گئے ہیں، کسی نے کہا کہ وہ تو بسم اللہ کے کوٹھے میں رہنے لگ گئے ہیں، الغرض کہ جتنے منہ اتنی باتیں، لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بولتے اور یہ اللہ کا بندہ ایسا پکا کہ سارا دن فارغ بیٹھ کر واپس آ جاتا۔ کچھ لوگ کہتے کہ بھئی! اگر جھوٹ نہیں بولنا تو کوئی اور کام کرو! یہ کہتے کہ نہیں، میں نے کرنا بھی وہی کام ہے جو میں نے پڑھا مگر بولنا سچ ہے۔ لوگوں کو یہ دو باتیں ناممکن نظر آتیں۔ ایک سال ان کے پاس کوئی مقدمہ نہ آیا، لوگ آپس میںہنسی مذاق اُڑاتے، محفلوں میں ان کے تذکرے ہوتے، کہتے پتہ نہیں اس کو کس نے مولوی بنا دیا؟ کیا کر دیا؟ اچھا بھلا بندہ تھا، خراب کر دیا۔

یہ عجیب و غریب طعنے سنتے، جو لوگ ان کے سامنے آنکھ اُٹھا کر نہیں دیکھ سکتے تھے، وہ بھی ان کا مذاق اُڑاتے، حتیٰ کہ ججوں میں بھی کبھی بات چلتی تو وہ بھی اس کے اوپر ہنستے، مگر یہ بندہ اپنی بات پر پکا رہا۔ ایک سال مجاہدے کا گزرا پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت شروع ہو گئی۔

نیک اور دیندار لوگ، مثلاً کوئی تبلیغی جماعت میں تھے، کوئی مدرسوں میں تھے، کوئی نیک گھرانوں کے تھے، ان کے اوپر بھی تو ناجائز مقدمات بن جاتے ہیں تو ان لوگوں نے بالآخر ان کی طرف آنا شروع کر دیا کہ بھئی! نیک آدمی ہے اور ہم اپنی بات میں سچے ہیں تو اس کے پاس کیوں نہ مقدمہ لے کر جائیں۔

اب جب یہ کسی مقدمے کو لے کر عدالت میں جاتے تو جج حیران ہو جاتا کہ یہ وکیل مقدمہ لے کر آیا ہے، جب وہ مقدمے کی پیروی سنتا تو اس کو واقعی محسوس ہوتا کہ یہ تو سچا مقدمہ لے کر آیا ہے، چنانچہ اس وکیل کے حق میں وہ فیصلہ دے دیتا۔ ایک کا فیصلہ اس کے حق میں، دوسر ے کا اس کے حق میں، تیسرے کا اس کے حق میں حتیٰ کہ ججوں کو یہ محسوس ہوا کہ ہمیں تو زیادہ تفتیش کرنے کی ضرورت ہی نہیں، یہ بندہ جو مقدمہ بھی لاتا ہے سچا ہی لاتا ہے، لہٰذا انہوں نے اس کے حق میں فیصلے دینا شروع کر دیے۔ اب تو جتنے سچے مقدمات والے لوگ تھے ان کی لائن لگ گئی، وہ دگنی اجرت دینے لگ گئے۔

اللہ کی شان اگلے ایک سال میں یہ ہر مہینے میں دو لاکھ روپیہ کما کر گھر لاتے۔ جب جھوٹ بولتے تھے تو مہینے کا لاکھ کماتے تھے، اب سچ بولنے کا عہد کیا تو اللہ نے سچ پر ان کے رزق کو دگنا کر دیا۔ پھر اس پر ایک عجیب بات اور بھی ہوئی کہ حکومت نے ایک پالیسی چلائی کہ جو وکیل تجربہ کار ہوں اور اچھے ہوں ان کو جج بنا دیا جائے گا، چنانچہ ان کا نام سب سے پہلے اس میں شامل کیا گیا۔

اب اللہ کی شان جب جھوٹ بولتے تھے تو زمین پر کھڑے ہو کر جج کو مائی لارڈ کہا کرتے تھے‘ سچ بولنے پر اللہ تعالیٰ نے ان کو جج کی کرسی کا عہدہ خود عطا فرما دیا۔ اب یہ کرسی کے اوپر بیٹھ کر لوگوں کے مقدموں کا فیصلہ کرتے تھے۔

ظاہر میں لگتا ہے کہ انسان جھوٹ بولے گا تو بچ جائے گا، حالانکہ جھوٹ بولنے سے انسان پھنس جاتا ہے۔ جھوٹ سے بے برکتی ہوتی ہے، جھوٹا انسان اللہ تعالیٰ کی نگاہوں سے گر جاتا ہے، اور جو انسان اللہ تعالیٰ کی نگاہوں میں گر جائے اسے کبھی بھی لوگوں میں عزت نہیں ملا کرتی۔ لوگ ظاہری طور پر تو اس کے سامنے آس کے ساتھ کی بات کر دیں گے لیکن الگ بیٹھیں گے تو اسے برا ہی کہیں گے، اسے برا ہی سمجھیں گے۔

سچ بولنے والے کے منہ پر تو لو گ اسے برا کہہ دیں گے لیکن جب پیچھے ہٹیں گے تو ان کے دل مانیں گے کہ یہ بندہ سچا ہے، یہ اچھا بندہ ہے۔ تو عورت اگر اپنے دل میں عہد کر لے کہ میں آج کے بعد سچ بولوں گی، غلطی ہوئی تو تسلیم کر لوں گی، نقصان ہوا تو مان لوں گی، بات سچ کروں گی، اس سچ کی برکت سے اللہ تعالیٰ اس کے ساتھ خیر کا معاملہ فرمائیں گے۔

سچ میں نجات

سچ کتنی بڑی نعمت ہے۔ ایک حدیث پاک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔‘‘
گویا سچ بولنے والے کو اللہ تعالیٰ جنت عطا فرما دیتے ہیں۔ عورتیں عام طور پر جھوٹ کیوں بولتی ہیں؟ وہ سمجھتی ہیں کہ جھوٹ میں نجات ہو گی۔ حالانکہ اللہ رب العزت کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بے شک سچائی نجات دیتی ہے اور جھوٹ ہلاکت میں ڈالتا ہے۔‘‘
تو اگر آپ اپنے سسرال میں پھنس گئی ہیں یا آپ کے آگے پیچھے آپ پر چوکیدار ، تھانیدار متعین ہو گئے ہیں اور آپ سمجھتی ہیں کہ مجھے ان کی مصیبت سے نکلنے کے لیے جھوٹ بولنا ہے تو یہ غلط ہے۔ آپ سچ بولیں گی تو اللہ رب العزت کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’صدق سے نجات مل جاتی ہے۔‘‘ تو اللہ تعالیٰ اس سچ کی برکت سے آپ کو ہر مصیبت سے نجات عطا فرمائیں گے۔

بچوں کو سچ کی عادت ڈالیں

اپنے بچوں کے بارے میں جھوٹ سچ کے معاملے میں بہت سختی کیا کریں۔ بچوں کی چند باتیں ہوتی ہیں جو معاف کر دینے کے لائق ہوتی ہیں لیکن سچ اور جھوٹ ایسی بنیادی چیز ہے کہ اس میں بچوں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ بچے کو کہیں کہ تیری ہر غلطی معاف ہو سکتی ہے لیکن تو اگر جھوٹ بولے گا تو تیرا جھوٹ کبھی برداشت نہیں کیا جائے گا‘ حتیٰ کہ بچے سچ بولنے والے بن جائیں۔

جس بچے کو آپ نے سچ بولنے والا بنا دیا آپ نے اس بچے کی آدھی تربیت آسانی سے کر دی۔ خود بھی سچ بولیں، بچوں کو بھی سچ بولنے کی تلقین کریں اور پھر سچ بولنے کی برکتیں اپنی آنکھوں سے دیکھیں۔ اللہ رب العزت اس سچ کے بدلے ہمیں جنت نصیب فرمائے اور اپنے سچے بندوں کی فہرست میں شامل فرمائے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button