کم عمری میں شادی، طلاق پھر حسین زندگی
کالج کی تعلیم سے فارغ ہوتے ہی میں نے ایک سعودی یونیورسٹی میں داخلے کے لیے اپلائی کر دیا۔
درمیان میں ایک مسئلہ آن پڑا کہ امریکہ میں زیرِ تعلیم ایک ہم وطن نوجوان نے میرا رشتہ طلب کر لیا… والدین نے میرے مشورے سے رضامندی کا اظہار کر دیا ۔ یہ طے ہو گیا کہ شادی کے فوراً بعد امریکہ جانا ہو گا۔ میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ میں اس تصور سے نہال تھی کہ امریکہ میں رہوں گی اور مزے کروں گی۔
بس ایک بات دل کو کھلتی تھی کہ گھر والے مجھے پردیس بھیجنے پر یکایک کیسے راضی ہو گئے ،حالانکہ وہ لڑکے کو پہلے سے جانتے تک نہ تھے اور میں تو ابھی عمرکے ابتدائی مراحل میں تھی۔ شادی ہوئی تو میں امریکہ میں اپنے خوبصورت گھر میں منتقل ہو گئی۔ خوشگوار دن تیزی سے گزرنے لگے۔میں نے چند ہی ہفتوں میں امریکہ کے تمام اہم مقامات دیکھ ڈالے۔ میرے شوہر کی خواہش تھی کہ میں وہاں کی ہر چیز کا مشاہدہ کروں تاکہ یہاں کی ثقافت سے اچھی طرح واقف ہو جاؤں۔
مسرت کے یہ ایام زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکے۔ ان دنوں ہم عقل و شعور کی ابتدائی منازل طے کر رہے تھے۔ کچھ عرصہ تو ہنستے کھیلتے اور گھومتے پھرتے گزر گیا ، لیکن پھر جلد ہی زندگی میں مدو جذر کا آغاز ہو گیا۔
ہر چیز میںلاپرواہی ہمارا معمول تھی ،حتیٰ کہ نماز جیسے اہم ترین فریضے سے بھی غافل تھے۔ بس ایک ہی دھن ہم پرسوار تھی کہ ہمیں ہر چیز کی ثقافت سے واقف ہونا چاہیے۔ پھر چھوٹے چھوٹے اختلافات شروع ہوئے جو بڑھتے چلے گئے۔ میرا شوہر بدلا بدلا سا نظر آنے لگا۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت گھر سے باہر گزارتا،خصوصاً رات کو بہت دیر سے گھر آتا۔
تیس برس گزر گئے ،اس دوران ہم مولود سے محروم رہے۔ غالباً اس چیز نے بھی ہمارے درمیان اختلافات کو ہوا دی۔کئی مرتبہ ازدواجی تعلق ختم کرنے کی نوبت آئی مگر اللہ تعالیٰ نے بچا لیا۔ یہ صورت حال جاری رہی حتیٰ کہ ہم وطن کی زیارت کے لیے سعودی عرب آ گئے۔
گھر پہنچی تو والدین نے مجھ پر تھکن کے آثار اور کمزور صحت دیکھی تو شک میں پڑ گئے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ میں نے فیصلہ کر لیا کہ والدین سے کوئی بات چھپا نہیں رکھوں گی ،چنانچہ پوری تفصیل سے ہر چیز والد صاحب کو بتا دی۔ ابو نے ایک طرف لے جا کر مجھ سے بہت سے سوالات کیے۔ انہوں نے ہر چیز کا کامل گہرائی سے جائزہ لیا اور میرے شوہر کے معاملات اور گھر میں سلوک کے بارے میں مفصل معلومات حاصل کیں۔ آخر میں انہوں نے یہ بھی جاننے کی کوشش کی کہ شوہر گھر بسانے میں کس حد تک سنجیدہ ہے۔
ابونے مجھے سوچنے اور فائنل فیصلہ کرنے کے لیے کچھ مہلت دی اور کہا: خوب سوچ سمجھ لو، اگر تم شوہر کے ساتھ نہیں رہ سکتی تو مجھے آگاہ کر دو۔ میں نے خوب غور وفکر کے بعد اس سے طلاق طلب کرنے کا فیصلہ کیا۔ میرا خیال یہی تھا کہ طلاق آسانی سے ہو جائے گی، کیونکہ وہ امریکہ میں کئی بار مجھے طلاق دینے کا ارادہ ظاہر کر چکا تھا۔ ہم کئی مرتبہ علیحدگی پر متفق بھی ہو گئے تھے لیکن اس نے اپنی شرائط منوائے بغیر طلاق دینے سے انکار کر دیا۔ ان میں ادنیٰ ترین شرط یہ تھی کہ مہر کی رقم پوری کی پوری واپس کی جائے۔
جس چیز نے میری اس کے ساتھ نفرت میں مزید اضافہ کر دیا، وہ اس کی طرف سے نت نئی شرائط کا اعلان تھا۔ حالانکہ میں نے اس کی تعلیم کے دوران اس کی بہت مدد کی تھی اور اپنے پاس موجود خاصی بڑی رقم بھی اسی پر خرچ کر ڈالی تھی۔ یہی نہیں بلکہ میری تین برس کی پوری تنخواہ بھی اسی کے استعمال میں رہی۔
بہرحال اس کے جو مطالبات تھے وہ پورے کر دیے گئے اور اس نے میرا طلاق کا مطالبہ پورا کر دیا۔
میں اپنی پرانی زندگی کی طرف لوٹ آئی۔ میں نے یونیورسٹی میں داخلے کے لیے اپلائی کیا اور انگریزی ادب پڑھنے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ پردیس میں تین سالہ قیام کے دوران مجھے انگریزی زبان پرخاصا عبور حاصل ہو چکا تھا۔
حسنِ اتفاق سے یونیورسٹی میں ایک پرانی سہیلی سے ملاقات ہو گئی۔ گرمجوشی سے سلام دعا کے بعد اور اس کے بہت سے سوالات کے بعد میں نے اسے بتایا کہ میں انگریزی ادب میں داخلہ لینا چاہتی ہوں۔ جامعہ سے فارغ ہونے میں اس کا ایک سال باقی تھا،وہ علوم اسلامیہ پڑھ رہی تھی۔ اس نے مجھے قائل کرنے کی کوشش کی کہ میں بھی اسلامی علوم کی کلاس میں داخلہ لوں۔ اس نے کہا: یہ تمہارے لیے انگریزی ادب سے کہیں بہتر رہے گا۔ تھوڑی سی محنت و کوشش کے بعد اس نے مجھے علوم اسلامیہ میں داخلہ لینے پر آمادہ کر لیا۔
اس کے دلائل میں یہ بھی شامل تھا کہ کلاس میں اس سہیلی کی معرفت تمام طالبات سے نہایت جلد تمہاری واقفیت اور دوستی ہو جائے گی۔ وہاں تمہاری پسند کی غیر نصابی سرگرمیاں بھی ہیں جن میں سیمینارز اور لیکچرز وغیرہ شامل ہیں۔ ان غیر نصابی سرگرمیوں نے مجھے ایک بار پھر بچپن کی طرف لوٹا دیا، جب میں ایسی سرگرمیوں میں بہت شوق سے حصہ لیا کرتی تھی۔اس نے کہا تم کسی تردد میں پڑے بغیر یہاں داخلہ لے لو۔ میں نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے یہی فیصلہ کر لیا۔
غیر متوقع طور پر نہایت تیز رفتاری سے میں اس شعبے کی ایک فعال سٹوڈنٹ بن گئی ،سیمینارز وغیرہ کی تیاری اور ترتیب میں بھرپور حصہ لیتی۔ میرے گروپ کی لڑکیاں سیر و تفریح کا بھی مناسب اہتمام کرتیں اور یہی چیز میں پچھلے تین سال سے مس کر رہی تھی۔ جلد ہی میری صحت بھی بحال ہو گئی اور زندگی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ ایک بار پھر میرے پاس لوٹ آئی۔
میری مصروفیات میں یہ بھی تھا کہ ایک موضوع پر میں اپنے نصابی مضامین تیار کرتی اور انہی میں سے گاہے بگاہے اپنی سہیلیوں کے سامنے دس منٹ کا لیکچر بھی دے ڈالتی۔ میرے اندر ایک عظیم قوت اور اپنے مقصد کے ساتھ سچی لگن پیدا ہو گئی۔ میں جس معاشرے میں اب رہ رہی تھی ،وہاں رہ کر فرائض سے غفلت اختیار کرنا محال تھا۔ میں نے نمازوں اور روزوں کے ساتھ ساتھ نوافل کا اہتمام بھی شروع کر دیا تھا۔ میں اللہ کابہت شکر ادا کر تی کہ اس نے مجھے اس شعبے میں بھیج دیا جہاں نیک لڑکیوں کی صحبت ہر دم مجھے حاصل رہتی تھی۔
ایک دن ہم چند سہیلوں نے میٹنگ کی،فیصلہ ہوا کہ ہم قرآن کریم حفظ کریںگی۔ یہ فیصلہ میرے لیے بہت اہم تھا کیونکہ میں زندگی میں ایک نیا مرحلہ شروع کر رہی تھی۔ ہم نے حفظ قرآن شروع کر دیا۔ ابتداء میں مجھے خدشات تھے کہ شاید یہ محنت جاری نہ رکھ سکوں،لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے لیے یہ کام آسان فرما دیا اور میں کسی انقطاع کے بغیر اپنا سفر طے کرنے لگی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میرا جو وقت ضائع ہوا ہے، اس کا تدارک میں اس طرح کروں گی کہ عقیدے اور فقہ کی کتب کامطالعہ زیادہ سے زیادہ کروں گی۔
سبحان اللہ! جب میں امریکہ جا رہی تھی تو میرا خیا ل تھا کہ میں خوش بختی کی بلندیوں پر ہوں، لیکن یہاں آ کر اندازہ ہوا کہ اللہ سے دور ہونے میں کوئی سعادت نہیں، اگرچہ بظاہر انسان کو مال و دولت اور آسائشوں کی چکاچوند نظر آ رہی ہو۔ حقیقی سعادت تو اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے ہی میں ہے۔
میری دینی اور دعوتی سرگرمیوں کا دائرہ میرے گھر تک وسیع ہو گیا۔ میری چھوٹی بہن نے بھی میرے ساتھ قرآن حفظ کرنا شروع کر دیا۔ میں نے اپنے ان اوقات میں سے کچھ وقت اپنی والدہ کے لیے مختص کر دیا تاکہ انہیں بھی مفید اسلامی لٹریچر سنا سکوں۔ بطور خاص خواتین سے متعلق دینی احکام و مسائل میں انہیں باقاعدگی سے سنایا کرتی۔ الحمدللہ ! ہمارے گھر میں اسلامی لٹریچر اور علمائے کرام کے لیکچرز کی ایک معقول تعداد جمع ہو گئی۔ میں جب بھی کسی تقریب میں جاتی یا کسی کی مہمان بنتی تو دینی لٹریچر اور علمائے کرام کی تقاریر میرے ساتھ ہوتیں۔ وہاں موجود لوگوں کو میں یہ چیزیں ہدیہ کر دیتی۔
میری زندگی مکمل بدل چکی تھی ۔ میں دنیا کو اب ایک نئی نظر سے دیکھ رہی تھی کہ یہ گزرگاہ ہے ،ٹھہرنے کی جگہ نہیں ہے۔ میرا سابق شوہر اپنی تعلیم مکمل کر کے امریکہ سے واپس آ گیا۔ اس کی والدہ ہمارے گھر آئی۔ اس نے جو ہوا، اس پرمعافی طلب کی اور از سر نو ازدواجی تعلق بحال کرنے کی درخواست کی۔ میں نے خاتون کے سر کو بوسہ دیا اور کہا : میں ماضی کو بھلا چکی ہوں اور میں نے آپ کے بیٹے کو اللہ کے لیے معاف کر دیا ہے،لیکن دوبارہ اس سے رشتہ استوار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ میں نے اپنی سابقہ ساس کو احترام کے ساتھ رخصت کیا اور اپنے سابق شوہر کے لیے دینی لٹریچر اور مفید لیکچرز کا ایک مجموعہ اس کی والدہ کے ہاتھ ارسال کر دیا۔ میں نے اسے دعوت دی کہ وہ توبہ کرے اور اپنے نفس کی اصلاح کرے۔
میں آپ کو یہ بتانا بھول گئی کہ اس دوران بہت سے جوانوں نے میرے رشتہ کے لیے پیغام بھیجا۔ انہی میں میری ایک سہیلی کا بھائی بھی تھا۔ میں نے رشتہ سے انکار کیا اور کہا کہ جب تک میں قرآن کریم حفظ نہ کروں، شادی نہیں کروں گی۔ یونیورسٹی میں یہ میرا آخری سال تھا اور حفظ کا بھی آخری سال تھا۔
تعلیم سے فارغ ہوئی تو مجھے گھر کے قریب ایک سکول میں ٹیچر متعین کر دیا گیا۔ میں نے طالبات میں دعوت کا کام پورے زور و شور سے جاری رکھا۔ سکول کی بچیاں میرے لیے گھر کے افراد کی طرح تھیں۔
ایک شام وہی سہیلی ہمارے گھر آئی اور مجھے یاد دلایا کہ تم نے حفظِ قرآن کے بعد شادی کرنے کاوعدہ کیا تھا۔ اب تمہارے پاس کوئی عذر نہیں۔ میں نے موافقت کر لی۔ کہنے لگی: تمہاری یہی بات اسے سب سے زیادہ پسند آئی کہ تم حفظِ قرآن سے پہلے شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔ الحمدللہ! نیک انسان، نمازی، پرہیز گار، تہجد گزار، بااخلاق، دیندار، مجھے اور کیا چاہیے تھا؟
زندگی اس کے ساتھ اتنی اچھی گزر رہی تھی گویا کہ ہم ایک دوسرے کے سالوں سے منتظر تھے۔ میں اس اللہ کی بے حد شکرگزار ہوں جس نے مجھے امریکہ سے نکال کر دینی تعلیم اور حفظ قرآن کی دولت عطا فرمائی۔ اس نے مجھے اپنی رحمت کے سائے میں لے لیا تھا۔