دجال کا جاسوس شیطانی جانور کون سا ہے؟

ایک روز اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھا چکے تو ہنستے ہنستے منبر پر تشریف لائے… پھر آپ نے فرمایا: جانتے ہو میں نے تمہیں کیوں جمع کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم میں نے تمہیں نہ تو کسی چیز کا شوق دلانے کے لیے جمع کیا ہے اور نہ کسی چیز سے ڈرانے دھمکانے کی خاطر جمع کیا ہے بلکہ میں نے تمہیں یہ بتانے کے لیے جمع کیا ہے کہ میرے صحابی تمیم داری رضی اللہ عنہ پہلی عیسائی تھے۔ وہ آئے اور میرے ہاتھ پر بیعت کی اور اسلام میں داخل ہو گئے۔ اور آج سفر سے واپسی پر انہوں نے مجھے اک ایسا قصہ سنایا جو اس قصہ سے مشابہ ہے جو تمہیں مسیح دجال کے بارے میں سنایا کرتا ہوں۔

وہ لخم اور جذام قبیلہ کے تیس آدمیوں کے ہمراہ سفر پر روانہ ہوئے… سمندری کشتی پر سوار ہوئے، دورانِ سفر موجیں مہینہ بھر ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی رہیں یہاں تک کہ وہ ایک سمندری جزیرے پر لنگر انداز ہو گئے۔ اس وقت سورج ڈوب چکا تھا۔ وہ ایک چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرے میں داخل ہوئے۔ ان کو ایک جانور ملا جس کے جسم پر بہت سے بال تھے۔ بالوں کی کثرت کی وجہ سے انہیں اس کے آگے پیچھے کا کوئی پتہ نہیں چل رہا تھا۔

انہوں نے کہا: تیرا ناس ہو تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا میں جسّاسہ (جاسوس) ہوں۔ انہوں نے پوچھا یہ جسّاسہ کیا چیز ہے؟ اس نے کہا: اے لوگو! دَیر (گرجے) میں موجود اس آدمی کی طرف جاؤ، وہ تمہاری خبریں سننے کا بڑے شوق سے انتظار کر رہا ہے…
ہم جلدی سے چلے اور اس دَیر (گرجے) میں جا داخل ہوئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ بھاری بھرکم شکل و صورت کا ایک آدمی جس کے لمبے لمبے ہاتھ، گھٹنوں سے لے کر ٹخنوں کے درمیان تک، اور اس کی گردن… لوہے کی زنجیروں سے مضبوطی سے بندھی ہوئی ہے۔

ہم نے پوچھا: تیرا ناس ہو تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا: میرا پتہ تو تمہیں چل ہی گیا ہے، یہ بتاؤ کہ تم کون ہو؟ ہم نے کہا: ہم عربی ہیں۔ ایک سمندری کشتی میں سوار ہوئے، سمندر موجزن تھا، مہینہ بھر اس کی موجیں ہمارے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی رہیں۔ یہاں تک کہ ہم تیرے اس جزیرے کے کنارے لگ گئے…اور جب ہم اس جزیرے میں داخل ہوئے تو ہمیں ایک ایسا جانور ملا جس کے بدن پر بہت سے بال تھے، بالوں کی کثرت کی وجہ سے اس کے آگے پیچھے کا پتا نہ چلتا تھا۔ ہم نے اس سے پوچھا: تو کیا چیز ہے؟ تو اس نے اپنے اور تیرے بارے میں کچھ بتایا اور یوں ہم تیرے پاس یہاں پہنچے ہیں…اور ہمیں خدشہ لاحق ہوا کہ کہیں تو شیطان ہی نہ ہو۔

پھر اس نے پوچھا: مجھے بیسان کے نخلستان کا حال بتاؤ؟ ہم نے کہا: اس نخلستان کے بارے میں کون سی بات پوچھنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں پوچھ رہا ہوں کہ اس میں پانی ہے؟ ہم نے کہا: اس میں بہت پانی ہے۔ اس نے کہا: اس کا پانی بہت جلد ختم ہو جائے گا۔ پھر اس نے پوچھا: مجھے زغر کے چشمے کے بارے میں بتاؤ؟ ہم نے کہا: اس زغر کے بارے میں کون سی بات پوچھنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا :میں پوچھ رہا ہوں کیا چشمے میں پانی ہے اور وہاں رہنے والے اس پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں؟ ہم نے کہا: ہاں! وہاں پانی بہت ہے اور وہ لوگ کھیتی باڑی کرتے ہیں۔

پھر اس نے کہا: مجھے اُمیوں کے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بارے میں بتائیے وہ کیا کر رہے ہیں؟ ہم نے کہا: وہ مکہ سے نکل کر یثرب میں قیام پذیرہیں۔ اس نے کہا: کیا عربوں نے ان کے ساتھ جنگ کی ہے؟ ہم نے کہا: ہاں، اس نے پوچھا: انہوں نے ان کا مقابلہ کیسے کیا؟ ہم نے اسے بتایا کہ وہ قریب قریب کے عربوں پر غالب آچکے ہیں اور انہوں نے ان کی اطاعت قبول کر لی ہے۔ اس نے پوچھا: کیا واقعی ایسا ہوا ہے؟ ہم نے کہا: ہاں!اس نے کہا: ان کے حق میں بہتر ہے کہ وہ ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت قبول کرلیں۔

پھر اس نے کہا : اب میں تمہیں اپنے بارے میں بتاتا ہوں: میں مسیح دجال ہوں، عنقریب مجھے خروج کی اجازت مل جائے گی میں نکل کر زمین کی سیر کروں گا اور چالیس راتوں میں مکہ اور مدینہ کے سوا ہر بستی کو گرا دوں گا۔ وہ دونوں میرے لیے ممنوع ہیں اور اگر ان میں سے کسی بستی کا قصد کروں تو ایک فرشتہ ہاتھ میں برہنہ تلوار لیے میرا سامنا کرے گا اور مدینہ کا دفاع کرے گا۔ نیز اس بستی کے ہر سوراخ پر فرشتے پہرہ دیں گے۔

حضرت فاطمہ بنت قیس کہتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر اپنا عصا مار کر کہا: یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ ہے، یہ طیبہ یعنی مدینہ ہے۔ دیکھو کیا میں نے تمہیں یہ قصہ نہیں بتایا تھا؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، بے شک آپ ایسابتاتے رہتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تمیم داری رضی اللہ عنہ کی یہ حکایت اچھی لگی کیونکہ یہ اس وحی کے مطابق ہے جو میں نے تمہیں مسیح دجال کے بارے میں، مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بارے میں بتائی ہے۔ دیکھو وہ شام یا یمن کے سمندر میں نہیں بلکہ وہ مشرق میں ہے، مشرق میں رہے گا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کیا۔ (رواہ مسلم و ابن ماجہ فی کتاب الفتن، عن فاطمہ بنتِ قیسؓ)

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button