ہمیشہ ہمیں ایک ’’مگر‘‘ کا سامنا کیوں رہتا ہے؟

اینی برانٹ (Anne Bronte) ایک خاتون ادیب ہیں ۔ وہ انگلینڈ میں 1820ء میں پیدا ہوئیں اور 1849ء میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کی تحریروں میں حقیقت پسندی کا سبق ملتا ہے۔ ان کا ایک قول یہ ہے کہ اس غیر معیاری دنیا میں ہر چیز کے ساتھ ہمیشہ ایک ’’مگر‘‘ موجود رہتا ہے :
There is always a "but” in this imperfect world.

یہ بلاشبہ ایک حکیمانہ قول ہے۔ موجودہ دنیا امتحان کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس لیے یہاں معیار کی حالت کو پانا، ممکن نہیں۔ یہاں مختلف قسم کی محدودیتیں ہیں۔ یہاں ہر انسان کو قول و فعل کی آزادی حاصل ہے۔ یہاں بار بار مفادات کا ٹکراؤ ہوتا ہے۔ اس بناء پر یہاں کسی کے لیے بھی ہموار زندگی کا حصول ممکن نہیں۔ یہاں آدمی کو ہمیشہ ایک ’’مگر‘‘ سے سابقہ پیش آتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنی کارروائیوں میں اس حقیقت کو سامنے رکھے، ورنہ وہ آخرکار ناکام ہو کر رہ جائے گا۔

آپ آزاد ہیں کہ اپنی گاڑی سڑک پر پوری رفتار کے ساتھ دوڑائیں۔ مگر آپ اس پر قدرت نہیں رکھتے کہ دوسری سمت سے آنے والی گاڑیوں کو روک کر سڑک کو صرف اپنے لیے خالی کر لیں۔ آپ ایک ناپسندیدہ جلوس کو روکنے کے لیے اس سے الجھاؤ کر سکتے ہیں مگر آپ کے بس میں یہ نہیں ہے کہ اس کے بعد مسلح پولیس کو مداخلت سے باز رکھیں۔

آپ اپنے ایک قومی ایشو کے لیے جلسہ جلوس کا ہنگامہ کھڑا کر سکتے ہیں مگر آپ کے لیے یہ ممکن نہیں کہ آپ فریق ثانی کے اندر مخالفانہ ردِعمل پیدا کرنے سے روک دیں آپ اپنی حق تلفی کے نام پر احتجاج اور مطالبات کا طوفان برپا کر سکتے ہیں مگر آپ دنیا کے اس قانون کو بدل نہیں سکتے کہ آدمی کو اتنا ہی ملے جتنی استعداد اس نے اپنے اندر پیدا کی ہو۔

اس دنیا میں ہر طرف ایک ’’مگر‘‘ کی رکاوٹ کھڑی ہوئی ہے۔ اس رکاوٹ کو جانتے اور اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنے عمل کا نقشہ بنائیے۔ اگر آپ نے اس کو نظر انداز کر کے اپنا عمل شروع کر دیا تو آخرکار تباہی کے سوا کوئی اور چیز آپ کے حصہ میں آنے والی نہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button