مصری دوشیزہ کی فلم انڈسٹری سے علیحدگی

ہناء ثروت مصر کی مشہور فلمی ایکٹریس تھی۔ 1957ء میں پیدا ہونے والی ہناء کو قدرت نے بے پناہ نسوانی حسن سے نواز رکھا تھا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس کی زندگی میں کوئی ایسا حادثہ یا واقعہ پیش آ جاتا ہے جو اس کی زندگی کے دھارے کو موڑ کے رکھ دیتا ہے۔ 1973ء کے اوائل میں جب ہناء نے فلم انڈسٹری میں قدم رکھا تو اسے بے حد پذیرائی ملی ۔

اپنے فلمی کیریئر کی ابتداء ہی سے وہ شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگی۔ کسی فلم میں اس کی شرکت کو کامیابی کی ضمانت سمجھا جانے لگا۔ انٹرٹینمنٹ کی خبریں شائع کرنے والے جرائد و رسائل ہر وقت اُس کے انٹرویو کے طلبگار رہتے۔ الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے اُس کی ایک جھلک دکھانے کے لیے اُ س کے گھر اور سٹوڈیو کے سامنے ڈیرے ڈالے رہتے۔ بڑی بڑی کمپنیاں اپنی تیار کردہ اشیاء کے اشتہارات کے لیے اُسے منہ مانگے دام دینے کو تیار رہتی تھیں۔

اس ساری شہرت کے باوجود وہ ہر وقت ذہنی دباؤ کا شکار رہتی ۔ اُسے محسوس ہوتا کہ کسی کو اس کی شخصیت، ذہانت، صلاحیت اور جذبات سے کوئی سروکار نہیں۔ ہر کسی کی نظر اس کے پرکشش چہرے، سفید جلد اور سڈول جسم پر ہے۔ اُسے اس ماحول سے گھٹن محسوس ہونے لگی۔ اسے یوں لگتا کہ یہ سب کچھ دھوکا اور فریب ہے۔ حقیقت سے اس کا دور کا واسطہ بھی نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اس کی قسمت میں بھلائی لکھ رکھتی تھی، اس کی ملاقات ایک انتہائی معقول اور مخلص شخص محمد العربی سے ہوئی۔ پھر ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھتا گیا اور پتہ ہی نہ چلا کہ یہ ملاقاتیں کب گہری محبت میں تبدیل ہو گئیں۔ اس نے زندگی میں ایک ہی صحیح کام کیا کہ ’’محمد العربی‘‘ سے شادی کر لی۔ لوگوں نے اسے بہت ڈرایا کہ شادی سے تمہارا کیریئر خطرے میں پڑ جائے گا۔ تمہاری مقبولیت کم ہو جائے گی۔ تمہاری شہرت کا گراف نیچے آ جائے گا ۔

فلم انڈسٹری والوں نے اُسے باقاعدہ دھمکیاں دیں۔ بلیک میل کرنے کی کوشش بھی کی، مگر اس نے بڑی ہمت سے ان چیلنجز کا مقابلہ کیا اور ’’محمدالعربی‘‘ سے شادی کر لی۔ نہ صرف شادی کی بلکہ لوگوں کے منع کرنے کے باوجود بچوں کو بھی جنم دیا۔ اب اس کے حسن میں پہلی سی بات نہیں رہی تھی، مگر اب بھی اس کا شمار ممتاز اداکاراؤں اور ماڈلز میں ہوتا تھا۔ ایک دن اس نے سنا کہ اس کی چھوٹی بیٹی مشہور عرب شاعر احمد شوقی کے دیوان کا ایک شعر پڑھ رہی تھی۔ ابھی وہ بہت چھوٹی تھی۔ پتہ نہیں کہاں سے اس نے یہ شعر سن لیا تھا۔ وہ اپنی توتلی زبان میں ترنم سے پڑھ رہی تھی:
’’انہوں نے یہ کہہ کر اُسے دھوکہ دیا کہ وہ بہت خوبصورت ہے، حسیناؤں کو تعریف اکثر دھوکے میں مبتلا کر دیتی ہے۔‘‘

وہ کچھ جانے بغیر بڑے معصومانہ انداز میں یہ شعر پڑھ رہی تھی۔ اُسے کیا پتا کہ یہ شعر ایک تیر کی طرح سیدھا اُس کی ماں کے دل میں جا لگا ہے۔ اس اداکارہ نے تائب ہونے کے بعد اپنے ایک انٹرویو میں بتایا: یہ شعر سن کر میرے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا۔ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے۔ یہ الفاظ بار بار میرے ذہن پر ہتھوڑے برسا رہے تھے:
((خَدعُوھَا))’’انہوں نے اسے دھوکہ دیا۔‘‘پتہ نہیں یہ دھوکہ کہاں سے شروع ہوا تھا، گھر سے؟ میرے والدین ہر وقت اپنی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے اور میں مختلف چینلز پر فلمیں اور ڈرامے دیکھتی رہتی تھی، یا سکول کے ماڈرن ماحول سے جہاں ہر بات میں مغرب کی نقالی کی جاتی تھی۔

میرا خاوند پہلے ہی مجھے شوبز چھوڑنے کی ترغیب دیتا رہتا تھا۔ اب ہم نے ارض مقدس کی زیارت اور عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کا پروگرام بنایا۔ مکہ مکرمہ میں اللہ تعالیٰ سے میں نے عہد کیا کہ آئندہ میں حجاب پہنوں گی۔ اپنے فرائض اور واجبات کتاب و سنت میں دی گئی تعلیمات کے مطابق ادا کروں گی۔ واپسی پر میں نے شوبز کی دنیا سے علیحدگی کا اعلان کر دیا۔فلم انڈسٹری اور انٹرٹینمنٹ کی دنیا میں میری علیحدگی کی خبر کسی دھماکے سے کم نہ تھی، مجھے بہت سی ترغیبات بھی دی گئیں، لیکن الحمدللہ! میرے رب نے مجھے ثابت قدم رکھا۔ (ماخوذاز تالیف:ھشام عواض)

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button