آپ مثالی ساس کیسے بن سکتی ہیں؟
’’ساس‘‘ کا نام ہمارے ہاں ’’بہو‘‘ کے لیے خوف کی علامت بن چکا ہے …’’میاں بیوی‘‘ کے نازک رشتے کو برقرا ررکھنے اور ایسے اسباب تلاش کرنے کے لیے ایک ایسی ’’ساس‘‘ سے تفصیلی بات ہوئی …جن کے ہاں چار بہوئیں ہیں اور انتہائی خوشگوار زندگی گزار رہی ہیں…یہ خاتون ایک سکول پرنسپل ہیں…درس و تدریس سے تعلق رکھتی ہیں… ان سے ہونے والے سوالات و جوابات ملاحظہ کیجئے۔ اُمید ہے اس سے بہت سی خواتین کو لائحہ عمل بنانے میں کامیابی ہوگی۔
سوال: ’’اپنے گھر کے افراد کے بارے میں ذرا بتائیں؟‘‘
جواب: ’’الحمدللہ! میرے چار بیٹے ہیں … چاروں کی شادیاں ہو چکی ہیں…اس طرح میری چار بہوئیں ہیں… ان کے علاوہ میرے ایک شوہر ہیں اور میری دو بیٹیاں ہیں۔‘‘
سوال: ’’آپ کا اور بہوؤں کا آپس میں تعلق کیسا ہے؟‘‘
جواب: ’’میں پہلے آپ کو ذرا اپنے بارے میں بتادوں تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو…میری شادی 45 سال پہلے ہوئی ، ہم دونوں ایک دوسرے کو جانتے تک نہیں تھے۔ بس قسمت میں لکھا تھا… سو ہماری شادی ہو گئی…جب ہماری شادی ہوئی تو پتا چلا کہ میری ساس بہت سخت مزاج کی خاتون ہیں… میرے سسر کا انتقال بہت پہلے ہو چکا تھا… گھر کے تمام معاملات کی نگرانی ساس کے ذمے تھی… میرے شوہر کا ایک بھائی تھا جو 18سال کی عمر میں انتقال کر گیا تھا… میری 4نندیں تھیں…
دو کی شادیاں ہو چکی تھیں اور دو ابھی گھر میں تھیں… جس طرح میری ساس سخت مزاج تھیں… میری نندوںکا مزاج بھی ان سے ملتا جلتا تھا…ذرا ذرا سی بات پر لڑائی جھگڑے ہوتے تھے لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میرے شوہر ان سب سے مختلف تھے۔ وہ بہت نرم مزاج کے مالک تھے… جب میری شادی ہوئی تو ایک دو ہفتے اچھے گزرے…اس کے بعد میرا جینا حرام ہو گیا… اکثر ساس اور نندیں مل کر مجھ پر برس پڑتیں … کئی مرتبہ مل کر مارا…
یہ سب کچھ میرے شوہر کو معلوم تھا لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ بہنوں اور والدہ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتے تھے۔ تقریباً دو سال بعد میری ایک نند کی شادی ہوئی … پھر اگلے سال دوسری نند کے لیے رشتہ آیا اور اس کی رخصتی ہوئی۔ اس کے بعد حالات کافی پرسکون ہو گئے…ساس اب بھی ذرا ذرا سی بات پر ڈانٹ ڈپٹ کرتی تھی مگر پہلے باقاعدہ ایک گروپ کی شکل میں جو اذیت دی جاتی تھی جو بہت تکلیف دہ ہوتی تھی…اب اس میں کمی آ گئی … میری شادی کے 14سال تک میری ساس حیات رہیں … میں نے اُن کی خوب خدمت کی اور یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ انہوں نے میرے ساتھ کوئی بُرا سلوک کیا ہے۔
میں مشکل حالات سے خود گزر چکی ہوں اور جس وقت میرے ساتھ ناانصافی ہوتی تھی… میں اس وقت سوچا کرتی تھی کہ ایک ’’مثالی ساس‘‘ بن کر دکھاؤں گی۔ اللہ کا شکر ہے کہ میں نے اللہ سے کیے ہوئے اس وعدے کی مکمل لاج رکھی … میرے گھر میں چار بہوئیں ہیں … میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ ان چاروں میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں ہو گی جو میرے بارے میں منفی رائے رکھتی ہو۔ میں نے بھی انہیں کبھی یہ محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں ان کی ساس ہوں … بلکہ میں ان کے ساتھ سہیلیوں کی طرح رہتی ہوں۔‘‘
سوال: ’’بیٹیوں کی شادی کے بعد ماں سمجھتی ہے کہ بیٹا چھن گیا ہے …آپ کیا کہتی ہیں؟‘‘
جواب : ’’ایک ماں اپنے بیٹے کو 20 ، 25سال تک پالتی پوستی ہے ، اس کے تمام معاملات میں دلچسپی لیتی ہے ، اسی طرح جب تک شادی نہیںہوتی ، تب تک بیٹا بھی ماں کو ہی اپنا محور و مرکز سمجھتا ہے۔ لیکن شادی کے بعد اس میں کچھ نہ کچھ کمی آ جاتی ہے اور یہ کوئی ایسی بات نہیں جس پر پریشان ہوا جائے۔ میرا خیال ہے کہ اس میں بہو اور ساس دونوں کو ایثار اور قربانی سے کام لینا چاہیے۔ ‘‘
سوال: ’’صبح دیر سے اُٹھنے پر جھگڑے ہوتے ہیں…آپ کے ہاں ایسا ہوتا ہے؟‘‘
جواب: ’’اللہ کا شکر ہے ہمارے ہاں ایسا نہیںہوتا… اس کی وجہ یہ ہے کہ میں شادی کے ایک ڈیڑھ ماہ تک اپنی بہو کو مکمل ریلیف دیتی تھی… وہ جس وقت چاہے اُٹھے … جب میرے کسی بیٹے کی شادی ہوتی تھی … میں اپنی بیٹیوں کو کہتی تھی … اگرچہ میری بیٹیوں کی عمریں زیادہ نہیں تھیں… کہ اب تم لوگوں کو ذرا مزید ہمت سے کام لینا ہوگا کیونکہ نئی دلہن کو کم از کم ایک مہینے تک آرام دینا ہے۔ والدہ کا فرض بنتا ہے کہ جب بیٹی کی شادی کی تاریخ طے ہو … اس کے بعد اپنی بیٹی کی ایسی عادت ڈلوائے کہ اسے صبح سویرے اٹھنے کی عادت ہو جائے۔‘‘
سوال:’’بعض اوقات ساس او رنندیں مل کر دلہن کا جینا حرام کر دیتی ہیں… آپ کیا کہتی ہیں؟‘‘
جواب: ’’بہت سے گھرانوں میں ایسا ہوتا ہے بلکہ بعض جگہ دباؤ میں رکھنے کے لیے باقاعدہ اس طرح کے حربے استعمال کیے جاتے ہیں…میرے خیال میں یہ مناسب طریقہ نہیں، اسی وجہ سے لڑکیوں میں بغاوت پیدا ہوتی ہے، یہ جو ہم روز سنتے ہیں کہ فلاں لڑکا اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو چھوڑ کر بیوی کے ساتھ کہیں اور چلا گیا … اس کی اکثر وجہ یہی ہوتی ہے کہ لڑکی ساس اور نندوں کی تنقید کو برداشت نہیں کر پاتی، اب اس کی تربیت نہیں ہوتی کہ کچھ عرصہ صبر کرے… سارا نزلہ بے چارے شوہر پر گرتا ہے … اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شوہر پر الگ رہائش کے لیے دباؤ شروع ہو جاتا ہے … جب وہ انکار کرتا ہے تو لڑکی میکے جانے کی دھمکی دیتی ہے ، لڑکا بھی اتنا سمجھدار نہیں ہوتا کہ بیوی کو اچھے طریقے سے سمجھا سکے۔ اسے صبر کی تلقین کر سکے ، وہ یہ دباؤ برداشت نہیں کر پاتا اور والدین اور بہن بھائیوں کو اکیلا چھوڑ کر کہیں اور جا بستا ہے۔
میں نے الحمدللہ اپنے گھر میں کبھی ایسی تفریق پیدا نہیں ہونے دی … میں نے اپنی بیٹیوں کو بتایا ہے کہ تم یہ نہ سمجھنا کہ روایتی نندیں بن کر رہو گی، یہ تمہاری بہنیں ہیں اور تمہارے بھائی کی عزتیں ہیں، جس طرح تم اپنے بھائیوں کی عزت کرتی ہو ، اس طرح ان کی بھی عزت کرو۔ اگر کوئی ایسی ویسی بات ہو جاتی ہے تو درگزر سے کام لیا کرو بلکہ میں گھر کے کام کاج میں بھی ہمیشہ اپنی بیٹیوں کو ہی تلقین کرتی رہتی ہوں ۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوگا کہ جب میری بیٹیوں کی شادیاں ہوں گی ، نئے گھروںمیں جائیں گی ‘ ان کے لیے کھانے پکانے اور گھر کو سنبھالنے میں دقت نہیں ہوگی، دوسری بات یہ ہے کہ اس طرح میری بہوؤں کے ذہن میں یہ بات نہیں آتی کہ میرا ان کے ساتھ کوئی امتیازی رویہ ہے۔‘‘
سوال : ’’آپ کی بہوؤں کے درمیان کوئی لڑائی جھگڑا ہوتا ہے؟ ‘‘
جواب: ’’ظاہر ہے انسان ہیں اور یہ انسانوں کی دنیا ہے…کبھی کبھار ایسا ہو جاتا ہے اور میں اسے کوئی زیادہ برا بھی نہیں سمجھتی … اصل مسئلہ یہ ہے کہ لڑائی جھگڑا طول نہ پکڑے اور اس سے گھر کا نظام متاثر نہ ہو۔ گلے شکوے ہر کسی کو ہو سکتے ہیں بلکہ شاید اس طرح دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ میری بہوؤں میں بھی کبھی کبھار ایسے معاملات ہو جاتے ہیں …میں اُس وقت کچھ نہیں کہتی۔ بعد میں انہیں بٹھا کر سمجھاتی ہوں اور اللہ کا شکر ہے…ان کے دل ایک دوسرے کے لیے صاف ہو جاتے ہیں۔ ‘‘
سوال: ’’بطور ساس آ پ ’’ساس‘‘ کے لیے کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟‘‘
جواب: ’’میں یہی کہوں گی کہ ہمارے معاشرے میں ’’ساس‘‘ کا لفظ بہت بدنام ہو گیا ہے…حالانکہ ہمارے ہاں ایسی ساسوں کی کمی نہیں جو اپنی بہوؤں پر جان نچھاور کرتی ہیں…لیکن فلموں اور ڈراموں کے ذریعے اس نام کو اتنا بدنام کر دیا گیا ہے کہ یہ نام آتے ہی عجیب سا احساس ہونے لگتا ہے۔ اگر کوئی ساس ایسی ہے جو واقعی اپنی بہو کے ساتھ ظلم کرتی ہے…زیادتی کرتی ہے تو اسے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جب وہ کسی زمانے میں بہو تھی …وہ اپنے لیے کیسا رویہ پسند کرتی تھی؟ میرا خیال ہے اگر ہر ساس ان چند باتوں کو اپنے سامنے رکھے تو ہمارے گھر پُرسکون رہیں گے؟‘‘