یہ دنیا سنگین حقیقتوں کا نام ہے
ایک شخص میز پر بیٹھا ہوا ہے۔ اس کے سامنے ٹائپ رائٹر کھلا ہوا ہے۔ اس کے ذہن میں کچھ خیالات آئے۔ اس نے ٹائپ رائٹر میں کاغذ لگایا اور اپنے ذہن کے مطابق تختۂ حروف (کی بورڈ) پر انگلیاں مارنی شروع کیں۔ اچانک اس کا ذہنی خیال واقعہ بننے لگا ۔ سامنے کے کاغذ پر مطلوبہ الفاظ چھپ چھپ کر ابھرنے لگے۔ یہاں تک کہ اس کے تمام جملے کاغذپر ٹائپ ہو کر سامنے آ گئے۔ چند جملے یہ تھے:
٭ میں حق پر ہوں
میرے سوا جو لوگ ہیں سب باطل پر ہیں۔
٭میرا کوئی قصور نہیں
ہر معاملہ میں قصور صرف دوسروںکا ہے۔
٭ میں سب سے بڑا ہوں
دوسرے تمام لوگ میرے مقابلے میں چھوٹے ہیں۔
٭ میں خدا کا محبوب ہوں
دنیا بھی میری ہے او رآخرت بھی میری ہے۔
آدمی خوش تھا کہ اس نے جو کچھ چاہا وہ کاغذ پر موجود ہو گیا ۔ مگر آدمی کی بدقسمتی یہ تھی وہ جس دنیا میں تھا وہ کوئی ٹائپ رائٹر نہیں تھی۔ ٹائپ رائٹر کے ایک کاغذپر جس طرح اس نے اپنے خیال کو واقعہ بنا لیا اسی طرح وہ حقیقت کی دنیا میں اپنے خیال کو واقعہ نہیں بنا سکتا تھا۔ کاغذ پر اپنی پسند کے الفاظ چھاپنے کے لیے تو صرف کی بورڈ پر انگلیاں مارنا کافی ہے۔
مگر حقیقت کی دنیا میں کسی خیال کو واقعہ بنانے کے لیے ایک لمبی اور سوچی سمجھی جدوجہد کی ضرورت ہے نہ کہ ٹائپسٹ کی طرح محض انگلیوں کو متحرک کرنے کی۔ نتیجہ ظاہر ہے کہ ٹائپ رائٹر کا آدمی عمل کی دنیا میں اس وقت بھی مکمل طور پر محروم تھا جب کہ الفاظ کی دنیا میں بظاہر وہ سب کچھ حاصل کر چکا تھا۔
یہ بات خواہ ہمارے لیے کتنی ہی ناگوار ہو، مگر یہ ایک واقعہ ہے کہ دنیا ہمارے لیے کوئی ٹائپ رائٹر اورکوئی ٹائپسٹ نہیں کہ محض ’’انگلیوں‘‘ کی حرکت سے ہم جو چاہیں دنیا کی سطح پر نقش کرتے چلے جائیں۔ یہ سنگین حقیقتوں کی دنیا ہے اور حقیقتوں سے موافقت کر کے ہی یہاں ہم اپنے لیے کچھ پا سکتے ہیں۔ آدمی کے پاس زبان اور قلم ہے۔ وہ جو چاہے لکھے اور جو چاہے بولے۔
مگر آدمی کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی زبان و قلم صرف الفاظ کی لکیریں بناتے ہیں نہ کہ زندگی کی حقیقتیں۔ الفاظ کاغذ پر نشان بن کر رہ جاتے ہیں ۔ آواز ہوا میں غیر مرئی لہروں کی صورت میں گم ہو جاتی ہے۔ اور بالآخر آدمی کے پاس جو چیز باقی رہتی ہے وہ صرف ایک جھوٹا انتظار ہے۔ اور حقائق کی اس دنیا میں کسی کا جھوٹا انتظار کبھی پورا نہیں ہوتا۔