شوگر مافیا کے خلاف کارروائی کیوں نہ ہو سکی؟
تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ملکی تاریخ کا سب سے بڑا شوگر سکینڈل سامنے آیا۔ اس وقت کے وزیر اعظم اور تحریک انصاف کی حکومت کی جانب سے شوگر مافیا کے خلاف ایکشن کے بلند و بانگ دعوے کیے گئے لیکن اس کے باوجود شوگر مافیا صرف دس ماہ کے دوران عوام کی جیبوں سے 67 ارب روپے نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔ مجموعی طور شوگر سکینڈل کی داستان 265ارب روپے کی ہے تاہم یہ 67ارب روپے وہ ہیں جو صرف دس ماہ کے دوران عوام کی جیبوں سے نکالے گئے۔ عمران خان حکومت گنے کی ریکارڈ پیداوار کا دعویٰ کرتی رہی مگر اس کے باوجود چینی کی فی کلو قیمت 150روپے تک پہنچ گئی۔
حکومت اور وزیر اعظم کی جانب سے چینی کی قیمتیں نیچے لانے اور شوگر مافیا کے خلاف ایکشن کے دعوے کیے جاتے رہے جو عملی شکل اختیار نہ کر سکے۔ حکومتی دعوے، شوگر کمیشن ، کمپٹیشن کمیشن کی رپورٹس، صدارتی فیصلے ایک جانب رہے اور دوسری طرف چینی کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا رہا۔ خود حکومتی اعداد و شمار شوگر مافیا کی جانب بڑے پیمانے پرعوام کو لوٹنے کی عکاسی کرتے ہیں۔ شوگر ملز مالکان نے حکومت کی بتائی گئی ایکس مل قیمت پر 67ارب روپے منافع کمایا۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دوران شوگر ملز مالکان کو 265ارب روپے کا فائدہ پہنچایا گیا۔
حکومت کی جانب سے گنے کی سپورٹ پرائس 200روپے فی من رکھی گئی تھی ، کسانوں نے اس قیمت پر شوگر ملز م مالکان کو گنے بیچنے سے انکار کر دیا تھا، کسانوں کا کہنا تھا کہ شوگر ملز مالکان گزشتہ دو برس سے ہم سے 180سے 190روپے کی سپورٹ پرائس پر گنا خرید رہے ہیں اور چینی کی قیمت 55روپے سے سو روپے سے زیادہ پر پہنچا دی گئی ہے۔ شوگر ملز مالکان نے تحریک انصاف کے دور حکومت میں محض دو سال میں اربوں روپے کما ئے ۔ جب کہ لاگت بڑھنے کے باوجود کسان کو کم پیسے دیئے گئے۔ شوگر ملز مالکان دو سو روپے سے زیادہ قیمت پر گنا خریدنے پر مجبور ہوئے اور چینی کی قیمت بڑھاتے چلے گئے۔
مشیر داخلہ و احتساب مرزا شہزاد اکبر کی جانب سے کہا گیا کہ ہم چونکہ ایک ایکس مل اور ریٹیل قیمت سیٹ کرنا چاہتے تھے اس لیے ہم نے حکومت کا ڈیٹا لینے کے بجائے شوگر ملز کے ڈیٹاکے اوپر قیمت مقرر کر دی۔ اگر ہم حکومتی ڈیٹا پر قیمت مقرر کرتے تو یہ پانچ چھ روپے نیچے آتی، لیکن ہم نے شوگر ملز کے ڈیٹا کے اوپر چینی کی قیمت مقرر کی اور اُس کو 80 روپے فی کلو ایکس مل قیمت اور 85 روپے ریٹیل قیمت مقرر کی۔ ادھر حکومت چینی کی 85 روپے فی کلو قیمت فروخت یقینی بنانے میں ناکام ہوئی، گزشتہ سال رمضان کے لیے لاہور ہائی کورٹ نے حکم دے دیا کہ رمضان میں چینی 85 روپے فی کلو فروخت کی جائے، شہزاد اکبر کی جانب سے اس فیصلے کو بڑا ریلیف قرار دیا گیا اور اسے منافع خوروں کے خلاف حکومت کی پہلی فتح کہا۔
امید تھی کہ عدالتی فیصلہ میں کم از کم رمضان کے مہینے میں عوام کو ریلیف ملے گا ، مگر شوگر مافیا نہ مانا ، حکومت کچھ نہ کر سکی ، شدید گرمی میں چینی کے حصول کے لیے عوام کی لمبی قطاریں لگ گئیں ۔ یوں گزشتہ رمضان میں حکومت کے بار بار کے دعوئوں، وعدوں اور پھر لاہور ہائی کورٹ کے حکومت کے حق میں فیصلے کے باوجود عوام کو چینی کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔ اس کے بعد حکومت بار بار88 اور89 روپے فی کلو چینی کی قیمت فکس کرتی رہی لیکن ناکام ہوئی اور شوگر ملزمالکان قیمتیں بڑھاتے چلے گئے، شوگر سکینڈل صرف فنانشل ہی نہیں بلکہ سیاسی سکینڈل بھی بن گیا۔
گزشتہ برس نومبر تک چینی کی فی کلو قیمت 100 روپے تک تھی، گنے کی کرشنگ اور درآمد کے بعد چینی پچاسی روپے فی کلو فروخت ہونے لگی۔ عمران خان نے سوشل میڈیا پر اپنے ایک پیغام میں اس چیز کا کریڈٹ لیا کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں 20روز میںچینی کی قیمت میں 20روپے کی کمی آئی ہے۔
درآمدی چینی کی کنٹرول ریٹس پر تقسیم اور کرشنگ سیزن کے بروقت آغاز کا بھی اہتمام کیا گیا، اس کے علاوہ کاشتکاروں کو مناسب اور جلد معاوضے کی ادائیگی کی یقینی بنانے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔ اپنے ایک اور پیغام میں عمران خان نے دعویٰ کیا کہ کثیر الجہت حکمت عملی کے نتیجے میں چینی ایک ماہ قبل کے 102روپے فی کلو کے مقابلے میں اوسطاً 81روپے فی کلو پر ملے گی، انہوں نے اس کارکردگی پر اپنی ٹیم کو مبارکباد بھی پیش کی، عمران خان نے چینی کی قیمت میں مزید کمی کی امید بھی دلائی، حکومتی وزراء بھی دعوے کرتے رہے۔ لیکن اس کے بعد عمران خان نے چینی کی قیمت پر کوئی ٹویٹ نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک ماہ بعد ہی چینی کی قیمت پہلے 91روپے فی کلو، پھر 100 روپے اور پھر 110روپے فی کلو ہو گئی۔ حکومتی شوگر کمیشن کی رپورٹ اور حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2021ء میں چینی کی اوسط قیمت 91روپے 25پیسے فی کلو ہو گئی۔
پاکستان میں چینی کی ماہانہ اوسط چینی کی کھپت 45لاکھ ٹن ہے۔ حکومتی شوگر کمیشن کے مطابق چینی کی فی کلو قیمت میں ایک روپے کے اضافے سے شوگر ملز مالکان کو سوا 5 ارب روپے کا اضافی فائدہ ہوتا ہے۔ جنوری 2021ء میں جب چینی 91روپے 25پیسے کی ہو گئی یعنی حکومت کی مقرر کردہ پچاسی روپے سے سوا 6روپے زیادہ تو صرف جنوری کے مہینے میں شوگر ملز مالکان کو 3ارب روپے سے زیادہ کا منافع ہوا ۔ پھر فروری میں چینی کی اوسط قیمت 93روپے ہوئی تو ماہانہ ساڑھے تین ارب روپے کا منافع شوگر ملزمالکان کو ہوا۔ مارچ 2021ء میں یہ قیمت بڑھ کر 98روپے ہو گئی جس سے شوگر ملز کو ایک مہینے میں 6ارب روپے کا اضافی منافع ہوا۔ پھر اپریل میں چینی کی قیمت 97روپے فی کلو پر پہنچی تو شوگر ملز کو ایک مہینے میں ساڑھے 5ارب روپے کا اضافی منافع ہوا۔
پھر مئی 2021ء میں 98روپے فی کلو چینی کی قیمت پر شوگر ملزمالکان کو 6ارب روپے کا اضافہ منافع ہوا۔ اس طرح جون میں بھی 98روپے کی قیمت پر 6ارب روپے کا اضافی منافع ہوا۔ جولائی میں چینی کی قیمت 103روپے ہو گئی اور 8ارب روپے کا اضافی منافع ہوا۔ اگست میں چینی کی قیمت 105روپے فی کلو رہی یعنی سوا 9ارب روپے کا اضافہ منافع ہوا۔ ستمبر میں 107روپے 59پیسے، یعنی ساڑھے دس روپے کا اضافی منافع ، اکتوبر میں خود حکومتی اعداد و شمار کے مطابق اوسط قیمت 103روپے 13پیسے فی کلو رہی جس سے سوا 8ارب روپے کا اضافی منافع کمایا۔ یوں مجموعی طور پر صرف دس ماہ کے دوران شوگر ملز نے 67ارب روپے اضافی کمائے۔ عمران خان نے چینی سکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا دعویٰ کیا مگر کوئی کارروائی ریکارڈ پر نہیں ہے کیونکہ جن افراد کے خلاف کارروائی کرنی تھی وہ عمران خان کی حکومت کا حصہ تھے۔