لڑائی جھگڑے سے خوشگوار ازدواجی زندگی تک
دودوستوں کی خانگی اُمور اور ازدواجی تعلقات پر گفتگو جو ہم سب کے لیے بہترین نصیحتوں پر مشتمل ہے، یہ مکالماتی گفتگو ہدیۂ قارئین کی جارہی ہے جس کے تناظر میں ہم بھی اپنی اصلاح کر کے اپنے گھر کو جنت بنا سکتے ہیں۔
زید نے اپنے دوست طفیل کو بتایا کہ ہم میاں بیوی آپس میں نہایت خوش و خرم ہیں اور ایک دوسرے کی رعایت کرتے ہیں اور زندگی کے ہر موڑ پر ایک دوسرے کے دکھ سکھ کا احساس کرتے ہیں۔ ماشاء اللہ میری اہلیہ تو بڑی ہمت اور دانش مندی سے میری ضروریات اور میرے مزاج کا پورا پورا خیال رکھتی ہیں ۔ میں شام کو جب گھر لوٹتا ہوں تو وہ میری منتظر ہوتی ہے اور خندہ پیشانی سے میرا استقبال کرتی ہے ، میری خدمت اور راحت کا از خود خیال رکھتی ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی اسے کہا ہو کہ آج تم میرے لیے فلاںچیز پکا دو یا میری خوشی کے لیے اچھے کپڑے پہنو۔
طفیل بھائی! تم تو معاشرے کی موجودہ روش کو جانتے ہو کہ عورتیں گھروں میں سادہ لباس میں رہتی ہیں اور شادی بیاہ یا کسی تقریب میں جانا ہو تو خوب بن سنور کر جاتی ہیں ، گویا ان کی زیب و زینت سب کے لیے ہے شوہر کے لیے نہیں۔ حالانکہ شادی کے بعد عورت کی زیب و زینت اور حسن وجمال کا اولین مستحق خاوند ہی ہے۔ اب میں خود بھی اس کے کپڑوں اور زیب و زینت کی ضروریات کا خیال رکھتا ہوں اور خود بھی ایسا رہتا ہوں کہ وہ مجھے دیکھے تو اُس کا بھی دل خوش ہو جائے۔
طفیل بھائی! میں نے جب سے یہ حدیث مبارکہ پڑھی ہے کہ ’’ تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہتر سلوک کرتاہو‘‘، اسی دن سے میں نے اپنے بیوی بچوں کے بارے میں اپنے رویے اور مزاج کو حسن سلوک میں تبدیل کرنے کی کوشش شروع کردی ہے اور مجھے اپنے مرشد کی مشاورت سے اس میں کافی حد تک کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس حدیث سے میری زندگی میں انقلاب آ گیا ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیوی سے حسن سلوک کرنے والے کو سب سے بہتر فرمایا ہے ۔ ذرا سوچئے!کہ کس قدر مبارک تاکید ہے اور کتنے اہم معاملہ کی طرف متوجہ کیاگیا ہے۔
زید نے طفیل کی دلچسپی دیکھی تو کہنے لگا: حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی دل جوئی کے لیے کیسی دعائیں فرماتے تھے کہ انصار کی بچیوں کو ان کے پاس کھیلنے کے لیے بلاتے ،جب حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پانی پیتیں تو پیالہ لے کر وہیں لب مبارک لگا لیتے جہاںسے انہوں نے پیا تھا ، اور جب وہ ہڈی سے گوشت کھاتیں تو آپ گوشت والی ہڈی لے کر اسی جگہ سے کھاتے جہاں سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کھایا ہوتا اور تو اور آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ دوڑ لگانے کا مقابلہ فرمایا۔
ازواج مطہرات کی دلجوئی کا کس قدر خیال فرماتے کہ اگر وہ ادھر ادھر کے قصے ، گزرے ہوئے واقعات بیان کرتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم برابر سنتے رہتے اور خود بھی اپنے گزشتہ واقعات سناتے۔
طفیل بھائی! جب سے میں نے اس طرح کے واقعات پڑھے ہیں ، میں نے اتباع سنت کی نیت سے انہیں اپنے معمولات میں شامل کیا ہوا ہے۔
جب سے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ازدواجی زندگی کا یہ درخشاں باب پڑھا ہے اسی وقت سے میں نے اس پر عمل شروع کر دیا جس کی برکت سے میں آج پُرسکون زندگی بسر کر رہا ہوں اور حقیقت یہی ہے کہ سیرت طیبہ اپنانے اور عملی زندگی میں نافذ کرنے کی چیز ہے نہ کہ منانے کی۔
طفیل نے پوچھا: ماشاء اللہ آپ تو مثالی حسن سلوک کا مظاہرہ کر رہے ہیں ۔ کیا آپ کی اہلیہ بھی اسی طرح کی رعایت کرتی ہے؟
زید بولا: میںنے آپ کو پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وہ میری ضروریات کا ہی نہیں بلکہ میرے مزاج کی بھی رعایت رکھتی ہے اور میرے کہنے سے پہلے از خود میری راحت کا خیال رکھتی ہے ۔ ہم دونوں میاں بیوی صبح اکٹھے سیر کو جاتے ہیں اور وہ میری چاہت کے مطابق خود کو سمارٹ رکھتی ہے اور اپنی جسامت وغیرہ کا خوب خیال کرتی ہے۔
طفیل نے کہا کیا آپ میں کبھی لڑائی جھگڑے کی نوبت بھی آئی ہے؟ زید نے کہا کہ نہیں۔ جب ہم ایک دوسرے کی راحت کا خیال رکھتے ہیں اور شرعی اصولوں کو مدِنظر رکھتے ہیں تو پھر لڑائی جھگڑے کی نوبت کہاں سے آئے، کیا تم نے نہیں سنا کہ ایک بزرگ فرماتے تھے کہ میری شادی کو پچیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن لڑائی جھگڑا تو دور کی بات ،کبھی مزاج بدل کر اہلیہ سے بات کرنے کی نوبت نہیں آئی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مثالی ازدواجی زندگی ہر دور میں ہر شخص کے لیے قابلِ اتباع ہے۔ طفیل بولا : زید بھائی! آج یہ نشست میرے لیے کافی قیمتی ثابت ہوئی ہے اور میں بھی اپنی زندگی کو پرسکون اور خوشحال بنانے کے لیے اسوہ حسنہ پر عمل شروع کرتا ہوں تاکہ میرا گھر بھی جنت کا نمونہ بن جائے۔