بیوہ کے درد نے رئیس کی آنکھیں کھول دیں
یہ حقیقت پر مبنی واقعہ ہے جو کویت میں پیش آیا۔ اس سے اہل کویت کے مزاج اور آداب کا بھی پتا چلتا ہے۔ یہاں کے لوگ بھلائی کے کاموں میں پیش پیش اور خیر خواہی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ایک شخص جو نیکی، تقویٰ اور بھلائی کے کاموں کے حوالے سے خاصا معروف تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کے مال میں برکت ڈال دی۔ جب خاصا سرمایہ فراہم ہو گیا تو اس نے سوچا کہ اس مال سے ایک گھر خرید لینا چاہیے، سرمایہ بھی محفوظ ہو جائے گا اور کرائے کی صورت میں آمدن بھی ہوتی رہے گی۔
اُس نے ایک پراپرٹی کمیشن ایجنٹ سے رابطہ کیا۔ ایجنٹ نے بتایا کہ میرے پاس ایک مکان ہے، یقینا آپ کو پسند آئے گا۔ خریدنے سے پہلے آپ ایک نظر دیکھ لیں۔ خریدار کو اس بات پر کوئی اعتراض نہ تھا، وہ خود بھی یقینا دیکھے بغیر نہ خریدتا۔ اس نے ایجنٹ سے پوچھا کہ ہم کب اس گھر کو دیکھنے کے لیے جا سکتے ہیں۔ ایجنٹ نے کہا کہ کل چلیں گے ان شاء اللہ۔ اگلے دن یہ دونوں افراد مکان دیکھنے کے لیے اُس جگہ پہنچ گئے۔ ایجنٹ اس شخص کو مکان دکھانے لگا… یہ ڈرائنگ روم ہے، یہ بیڈ رومز ہیں، یہ کچن ہے، یہ اتنے باتھ رومز ہیں وغیرہ۔
اچانک ایک کمرے میں جا کر خریداری کے لیے آنے والے شخص کو شدید دھچکا لگا۔ اس کمرے کے ایک کونے میں ایک خاتون چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ بیٹھی رو رہی تھی اور کہہ رہی تھی: ’’ان لوگوں کے لیے اللہ ہی کافی ہے جو ہمیں اس گھر سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
وہ شخص یہ منظر دیکھ کر تیزی سے باہر آ گیا ۔ ایجنٹ اس کو پیچھے سے آوازیں ہی دیتا رہ گیا۔ ایجنٹ اس کے پیچھے پیچھے باہر آ گیا اور بولا: سر! یہ تو بتاتے جائیے کہ آپ کو گھر پسند آیا یا نہیں؟ وہ شخص کہنے لگا: مجھے مکان پسند آیا یا نہیں یہ تو بعد کی بات ہے۔ پہلے یہ بتاؤ کہ اس خاتون اور اس کے بچوں کا کیا قصہ ہے؟
ایجنٹ نے بتایا کہ یہ اس گھر کے مالک کی بیوی ہے۔ اس کا خاوند حال ہی میں فوت ہوا ہے۔ اس نے اپنے ورثاء میں یہ خاتون اور بچے چھوڑے ہیں۔ لیکن اس سلسلے میں ایک مشکل حائل ہے کہ اس شخص کی ایک اور بیوی بھی تھی، جسے اس نے ان بیوی بچوں سے خفیہ رکھا ہوا تھا۔ اس بیوی سے بھی اولاد ہے۔ وہ بھی اسلامی اور قانونی اعتبار سے اس مکان کے وارث ہیں۔ وہ فوری طور پر اپنا حصہ وصول کرنا چاہتے ہیں، اس لیے مکان کا بکنا ناگزیر ہے۔ خاتون آرزدہ اور پریشان ہے کہ اگر چھت بھی چھن گئی تو وہ کدھر جائے گی؟ کرائے کے مکان میں کیسے رہے گی؟ کمانے والا تو رہا نہیں، مکان کا کرایہ کیسے ادا ہو گا؟
وہ شخص کہنے لگا: اچھا تو یہ مسئلہ ہے۔ میں نے یہ مکان خریدنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کل میں آپ کو رقم ادا کر دوں گا۔ اس شخص نے مکان خرید لیا۔ سب ورثاء کو اُن کا حصہ دے دیا ۔ اس خاتون اور اس کے بچوں کو بھی حصہ دے دیا گیا۔ سب کے حصے دینے کے بعد یہ شخص اس خاتون کے پاس گیا۔ وہ خاتون انتہائی خوف زدہ تھی۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ ابھی یہ شخص گھر خالی کرنے کے لیے کہے گا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اس مقصد کے لیے سختی کرے۔ میں بچوں کو لے کر کہاں جاؤں گی؟
جب وہ شخص اس گھر میں پہنچا تو یہ خاتون رو رہی تھی۔ یہ معزز شخص گھر میں داخل ہوتے ہی کہنے لگا: آپ خاطر جمع رکھیں۔ آپ کو غمزدہ یا خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ اس مکان کے کاغذات ہیں، میں نے یہ مکان آپ کے نام کر دیا ہے۔ اب یہ آپ کی ملکیت ہے۔ خاتون پہلے بھی رو رہی تھی اور اب بھی رو رہی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ پہلے غم، بے چارگی اور کسمپرسی کے آنسو تھے، مگر اب اس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ وہ خاتون اللہ کا شکر ادا کر رہی تھی۔ اس معزز شخص کے لیے ڈھیروں دعائیں کر رہی تھی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے محسن کو اس کا بہتر بدلہ عطا فرمائے۔ انہیں وہاں سے رزق دے جو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو۔
اس واقعے اور مظلوم خاتون کی دعا کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُس شخص کے کاروبار میں خوب برکت ڈال دی۔ دن رات اُس پر ہن برسنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اُس کا شمار رؤسا میں ہونے لگا۔ اُس شخص کی وفات کے بعد اُس کی اولاد بھی اپنے باپ کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔ وہ بھی نیکی اور بھلائی کے کاموں میں پیش پیش رہتے ہیں۔ احسان کا بدلہ احسان ہی کی صورت میں نکلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ترجمہ: ’’تم اپنے لیے جو بھی بھلائی آگے بھیجو گے، اسے اللہ تعالیٰ کے ہاں بہتر اور زیادہ اجر والی پاؤ گے۔‘‘ (المزمل:20:73)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان اس نکتے کی مزید وضاحت کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے معروف کو پیدا کیا اور اس معروف اور بھلائی کے اہل بھی پیدا کیے۔ اللہ تعالیٰ نے اس معروف اور اس کے کرنے کی چاہت اُن کے دلوں میں ڈال دی۔ اور اُس کے طلب گاروں کو بھی اس طرح اُن کی طرف متوجہ کیا جیسے وہ قحط زدہ زمین کی طرف پانی کو بھیجتا ہے تاکہ قحط زدہ زمین زندہ ہو جائے اور اس کے رہنے والے بھی جی اُٹھیں۔ جو دنیا میں بھلائی والے ہیں، وہ آخرت میں بھی بھلائی والے ہیں۔‘‘ (المستدرک للحاکم)