فلسطینی جس پر اللہ نے نعمتوں کی برسات کر دی

فلسطین میں ایک مشہور شہر ’’الخلیل‘‘ہے۔ یہ شہر ہمارے جد امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے نام پر بسایا گیا ہے۔ یہ شہر بیت المقدس سے جنوب کی طرف کوئی چالیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہاں کے ایک کالج میں نوٹس بورڈ پر روزانہ طلبہ کچھ نہ کچھ واقعات یا نصیحتیں چسپاں کیا کرتے تھے۔ کالج کے طلباء ان کو بڑی دلچسپی سے پڑھتے ۔ طلبہ کا ایک گروپ اس بات پر غور و فکر کرنے لگا کہ ہمیں اس نوٹس بورڈ پر کوئی ایسا واقعہ یا قصہ چسپاں کرنا چاہیے جو بڑا ہی منفرد اور نرالا ہو۔ ایک کہنے لگا: ہمارے شہر میں ایک بہت ہی معزز اور بزرگ شخصیت قیام پذیر ہیں۔

ان کی عمر اس وقت ایک سو پچیس سال ہے۔ ایک سو پچیس سال! ایک طالب علم بڑے تعجب سے لمبی سانس لیتے ہوئے بولا۔ پھر تو ان کے پاس بڑے ہی تجربات اور کتنے ہی منفرد واقعات ہوں گے۔ ارے! انہوں نے تو پہلی اور دوسری عالمی جنگیں بھی دیکھی ہوں گی۔ بتانے والا کہنے لگا : ہاں، مزیدار بات یہ ہے کہ اتنی عمر ہونے کے باوجود ان کی صحت بڑی عمدہ ہے۔ حافظہ بالکل درست ہے۔ بالکل صحیح طریقے سے بات چیت کرتے ہیں۔
ہمیں ان سے ضرور ملنا چاہیے۔ ان سے ہم بہت سارے واقعات سن سکتے ہیں۔ تیسرے نے رائے دی۔

دوستوں نے اتفاق کرنے کے بعد بڑے میاں سے ملاقات کا وقت طے کیا اور ان کے گھر جا پہنچے۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیاجا چکا ہے کہ 125سال عمر ہونے کے باوجود وہ بڑے صحت مند تھے۔ ان کے ہوش و حواس ٹھیک تھے او ران کی یادداشت بڑی عمدہ تھی۔ بڑے میاں نے گروپ کو خوش آمدید کہا۔ گروپ کے طلبہ نے ان سے درخواست کی : محترم! آپ کی عمر اتنی زیادہ ہو چکی ہے۔ آپ نے زندگی میں بے شمار حادثات و واقعات دیکھے ہوں گے۔ ہمیں کوئی ایسا واقعہ سنائیں جو آپ کی زندگی کا سب سے دلچسپ اور منفرد واقعہ ہوا۔

بڑے میاں گویا ہوئے۔ میرے پیارے بچو! میں آپ کو دوسرے لوگوں کی بجائے اپنی ہی زندگی کا عجیب واقعہ کیوں نہ سناؤں۔ طلبہ نے بہت خوشی کا اظہار کیا۔ بڑے میاں گویا ہوئے: اللہ تعالیٰ نے مجھے خوب دولت سے نوازا ہوا ہے۔ میری بہت ساری جائیدادیں اور زمینیں ہیں۔ عین جوانی کی عمر میں میری شادی ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے یکے بعد دیگرے دس بیٹے عطا کیے۔

سارے بچے میری زندگی میں جوان ہو گئے۔ بڑے خوبصورت، دراز قد بیٹے میری رونق اور بہار تھے۔ جب میری عمر ستر سال ہوئی تو اچانک میری اہلیہ وفات پا گئیں۔ مجھے اس کا بڑا صدمہ ہوا۔ ایسی عورت جس کے ذریعے اللہ نے مجھے دس بیٹے دیے تھے، وہ میرے گھر کی رونق اور میرے دکھ سکھ کی ساتھی تھی۔ اس کے جدا ہونے سے میں خاصا پریشان ہوا، مگر یہ اللہ کے فیصلے ہیں۔ ادھر میری حالت یہ تھی کہ ستر سال کی عمر ہونے کے باوجود میں بالکل تندرست و توانا تھا۔ میں نے سوچا کہ کیوں نہ دوسری شادی کر لوں۔ جیسے ہی میں نے دوسری شادی کی خواہش کا اظہار کیا، میرے سارے بچے باری باری میرے پاس آئے۔ انہوں نے میری شادی کی مخالفت کی۔ ان کا کہنا تھا: ابا جان! نجانے ہماری سوتیلی ماں ہمارے ساتھ کیسا سلوک کرے؟

ہمارے گھر کا بڑا عمدہ ماحول ہے۔ اس لیے ہمارا آپ کو مؤدبانہ مشورہ ہے کہ آپ اس عمر میں شادی نہ کریں۔ خیر میں نے اس پر صبر کیا۔ ہو سکتا ہے ان کی نظر میری وسیع و عریض جائیداد پر ہو۔ انہیں خدشہ ہو کہ اگر میں نے دوسری شادی کر لی اور اس میں سے بھی اولاد ہو گئی تو وہ بھی جائیداد میں حصہ دار بن جائیں گے۔ وقت گزرتا چلا گیا ۔ میں نے بھی شادی کے موضوع کو بھلا دیا اور اپنی اولاد میں مگن ہو گیا ۔ پھر نجانے ہمارے گھر کو کس کی نظر لگ گئی کہ اچانک میرا ایک بیٹا طبعی موت سے فوت ہو گیا۔ مجھے بے حد صدمہ ہوا۔ اب میرے پاس نو بیٹے تھے۔ ایک سال گزرا تو میرا ایک اور بیٹا بیمار ہو کر اپنے رب کے پاس چلا گیا۔

اس طرح پیارے بچو! ہر سال میرا ایک بیٹا طبعی موت وفات پا کر اس دنیا سے رخصت ہوتا چلا گیا۔ میری عمر اس وقت اسی سال تھی جب میرے تمام دس کے دس بیٹے ایک ایک کر کے میری آنکھوں کے سامنے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ میں نے ہر بیٹے کی وفات پر صبر اور شکر کا مظاہرہ کیا، مگر اندر سے کھوکھلا ہو چکا تھا۔ میں ہر بیٹے کی وفات پر ’’الحمدللہ علی کل حال‘‘ کہتا رہا۔ جب میرے سارے بیٹے وفات پا گئے تو مجھے اکیلے پن کا شدید احساس ہوا۔ اب پھر میری خواہش تھی کہ میری اولاد ہو۔ چنانچہ میں نے ایک مرتبہ پھر شادی کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ اب مجھے کسی سے مشورہ لینے کی ضرورت نہ تھی، نہ ہی مجھے کوئی روکنے ٹوکنے والا تھا۔ میرے پاس زمینوں کی صورت میں خاصی جائیداد تھی اور مجھے وہاں سے وافر پیسہ مل جاتا تھا۔

میں نے رشتہ تلاش کرنا شروع کیا۔ تھوڑی سی کوشش اور تگ و دو کے بعد ایک دوشیزہ سے میری شادی ہو گئی۔ میری ہونے والی بیوی مجھ سے کہیں کم عمر تھی۔ میری عمر تو اسی سال ہو چکی تھی، مگر مجھے بالکل نوجوان لڑکی کا رشتہ مل گیا۔ میری شادی کو ایک سال گزرا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک خوبصورت بیٹے سے نوازا۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میرا وارث دنیا میں آ گیا ہے۔ ہم نے بڑی خوشیاں منائیں۔ جب میرے ہاں دوسرا بیٹا پیدا ہوا تو اس وقت میری عمر بیاسی سال تھی۔

عزیزو! اللہ کی رحمتیں ایک مرتبہ پھر میرے اوپر نازل ہونا شروع ہوئیں۔ ہر سال اللہ تعالیٰ مجھے ایک بیٹے سے نوازتا چلا گیا اور جب میری عمر نوے سال ہوئی تو میں دس بچوں کا باپ بن چکا تھا۔ سب کے سب زندہ سلامت اور تندرست تھے۔

میرے بچو! اب میری عمر 125سال ہو چکی ہے۔ میرے دس بیٹے میری آنکھوں کا تارا ہیں۔ میرے سامنے وہ سارے جوان ہوئے ہیں۔ میں ان کو دیکھ دیکھ کر جیتا ہوں اور اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے اس بڑھاپے میں مجھے اولاد کی نعمت سے نوازا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بلاشبہ حق اور شک ہے:
ترجمہ: ’’اللہ ہی کے لیے آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہی ہے۔ وہ جو چاہتا ہے، پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا بیٹیاں اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا فرما دیتا ہے یا انہیں لڑکے اور لڑکیاں دونوں عطا فرماتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ ہی رکھتا ہے۔‘‘ (الشورٰی 49:42، 50)

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button