لیالی رمضان میلہ و الطیبات انٹرنیشنل میوزیم

جدہ شہر سعودی عرب میں حجازی تہذیب کا قدیم شہر مانا جاسکتا ہے، جدہ کو یہ خصوصیت کئی وجوہات کی بنیاد پر حاصل ہے، مکہ و مدینہ کے قریب قدیمی بندرگاہ، اور حجاز کی تہذیب کا مرکزی شہر ہونے کی وجہ بھی اس کی بنیاد رہی ہے، جدہ کی قدیم تاریخ جدید عرب سے پہلے کی ہے۔ خلیج کی قدیم ترین بندرگاہوں میں سے ایک اور مسلمانوں کے مقدس ترین شہر مکہ مکرمہ کے لئے اسے گیٹ وے کی حیثیت بھی حاصل ہے۔ اسی لئے اس شہر کو آج کے سعودی عرب میں بھی مرکزیت حاصل ہے اور یہاں کے تاریخی مظاہر بھی اس کے گواہ ہیں۔ دو سال سے کرونا وبائی وائرس نے جہاں دنیا بھر میں ہر طرح کے معاملات کو محدود کیا ویسے ہی جدہ شہر میں رمضان المبارک کے مقامی روایتی تہذیبی رنگ بھی پھیکے پڑگئے تھے، جن میں سے ایک قدیم روایت "لیالی رمضان” یعنی رمضان کی راتیں تھیں، جن میں یہاں مختلف اقسام کے میلے یا رت جگے چلتے تھے۔

الطیبات انٹرنیشنل سٹی و میوزیم

اس سال بالآخر "لیالی رمضان” رمضان کی راتوں کے میلہ کا پہلا پروگرام الطیبات انٹرنیشنل سٹی آف سائنس اینڈ نالج Al Tayebat International City of Science & Knowledge میں یہ میلہ یکم رمضان سے شروع ہوچکا ہے۔ الطیبات انٹرنیشنل سٹی میں میوزیم بھی ہے جو جدہ کے مشہور مقامات میں سے ہے۔ جہاں آپ جدہ و حجاز کی ڈھائی ہزار سالہ تاریخ کو سمائے ہوئے دیکھ سکتے ہیں، یہ میوزیم Multiroom Complex ہے، جس میں ۳۹۵ کمرے ہیں جس میں عرب، اسلامی، یورپی اور یونانی تاریخ، سعودی عرب کی ریاستوں، ۱۵ پویلینز، باب مکہ، حارث الشام اور حارث الیمن سمیت جدہ ایونیو Jeddah Avenue کے پانچوں راستوں کی عکاسی کی گئی ہے۔ یہ میوزیم اتنا بڑا ہے کہ اس کو اچھے طور پر دیکھنے کے لئے کم ازکم ایک ہفتہ درکار ہوگا۔ یہ شہر اسلامی تہذیبی ورثے کی ایک مکمل داستان بتاتا ہے۔

یہ مشرق وسطٰی کے سب سے بڑے عجائب گھروں میں سے ایک ہے۔ اس میں بہت سے تاریخی اور ثقافتی فن پارے رکھے گئے ہیں۔ پرانے جدہ کے روایتی حجازی فن تعمیر کو دوبارہ تخلیق کرتا دکھائی دیتا ہے، جس میں خلیج کی روایتی کھڑکیاں لکڑی کے ڈیزائن کردہ جالیوں کے کام اور آرائشی مرجان کی چٹائیوں سے ڈھکی ہوئی ہیں۔ یہ مختلف منزلوں پر مشتمل ہے، گراؤنڈ فلور پر، زائرین سائنس، ثقافت اور صنعت میں گزشتہ صدیوں میں اسلام کا احوال اور اسلام اور اس کے عروج کے بارے میں جان سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مکہ مکرمہ کا ایک ماڈل بھی شامل ہے، جس میں کعبہ بھی شامل ہے، بیت اللہ کے بیچ میں واقع مربع خانہ کعبہ، یہاں تمام معلومات عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں موجود ہے، جن میں پیغمبر اسلام رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پورے نبوت کے سفر کی نشاندہی کرنے والے اہم شعبوں کی تفصیلات موجود ہے۔

یہاں پر ماضی کے حجازی شاندار آرٹ، ابتدائی اسلام کے قلمی نسخے، مٹی کے برتن، پرانے سکے اور ہتھیار، اور پوری دنیا میں اسلام کے پھیلاؤ کی بابت آگاہی دینے والا نقشہ بھی ملے گا۔ قبل از اسلام کی تاریخ یعنی چھٹی صدی عیسوی سے پہلے کی تاریخ کے بھی کئی نوادرات و معلومات موجود ہیں۔ ماضی میں خطہ عرب آنے والے جغرافیہ دانوں اور سیاحوں اور ماہرین آثار قدیمہ کے ابتدائی اسکرپٹ بھی یہاں ملیں گے، جدہ کی ماضی کی بندرگاہ کو بھی ایک ترقی پذیر بندرگاہ کے طور پر دکھایا گیا ہے، جب اسلامی خلافت و۔ کے عہد میں یہاں ان بندرگاہوں کو ایک مرکزیت حاصل رہی تھی، اور جہاں سے عرب میں تیل کی تجارت کا آغاز ہوا اور آج کی جدید ترین بندرگاہ تک کا سفر بھی نظر آئے گا۔ اسی جدہ کے ساحلوں پر ماضی میں یہاں کے قبائل کا ایک بڑا روزگار ماہی گیری رہا ہے، یہاں اس عہد کی ماہی گیری اور ماہی گیروں کی زندگی کے نمونے بھی دیکھے جاسکتے ہیں، اس کے علاوہ بحیرہ احمر کا ایک ڈسپلے ماڈل بھی ہے جس میں یہاں کی سمندری زندگی کو دکھایا گیا ہے۔

خصوصا عہد اسلام سے کہیں پہلے لاکھوں سال پہلے کی قدیم زندگی سے لے کر، جب خطہ عرب دریاؤں اور سبزہ زاروں سے بھرا ہوتا تھا، سے لے کر آج تک کی ریاست سعودی عرب کے بانی حکمران شاہ عبدالعزیز کی جدید سلطنت کی تشکیل تک اس میوزیم میں تاریخی عکاسی دکھانے کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ میوزیم کی دیواروں کی آرائش میں برطانوی وزیر اعظم ونسٹن چرچل اور امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ سمیت غیر ملکی معززین کے ساتھ سعودی بادشاہوں کی تصویریں بھی موجود ہیں، اس کے علاوہ شاہ عبدالعزیز کے اقتدار میں آنے اور ایک نئی متحد مملکت بنانے تک اس دور حکومت کی کہانی کی تاریخ بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ سعودی ثقافت سے متعلق نمائشیں بھی دیکھ سکتے ہیں، بشمول خانہ بدوش بدوؤں کی زندگی، ان کے روایتی لباس (بشمول حجازی دلہن کے لباس کا ایک حصہ)، اور سعودی عرب میں ماضی تا حال کرنسی نوٹ و قدیم سکے تک موجود ہیں۔ میوزیم میں داخلے کی فیس ہے جو 80 سعودی ریال بمطابق ڈالرز (US$21.32) بنتی ہے، قریب پاکستانی چار ہزار روپے۔ شائد اسی لئے اکثر ایشین غیر ملکی اس میوزیم کے حوالے سے زیادہ نہیں جانتے، کیونکہ بہرحال یہ عام آدمی کے لئے ایک اچھی رقم ہے ہاں اگر کوئی میوزیم وغیرہ سے ذوقرکھتا یورو یقینا یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے۔

لیالی رمضان میلہ

جدہ میں اس سال جو لیالی رمضان میلہ لگایا گیا ہے وہ اسی الطیبات انٹرنیشنل سٹی میں لگایا گیا ہے، میلے تک رسائی بالکل مفت ہے، اس میلے میں رمضان سے جڑی روایت المسحراتی کی پرفارمنس بھی شامل ہے، المسحراتی قدیم عرب روایت ہے جس میں سحری کے وقت روزہ داروں کو جگانے کے لیے کچھ لوگ ڈھول بجاتے ہیں اور اونچی آواز میں شعر سناتے ہیں۔ یہ روایت اب قریب قریب معدوم ہوچکی ہے، اس کے علاوہ نیلے میں حجاز کی روایتی شادیوں اور مہندی کی راتوں کی پرفارمنس بھی پیش کی جارہی ہے۔ اس میلے میں بھی قدیم جدہ و حجاز کی روایات کو کو دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔

اس کے علاوہ میلے میں روایتی ملبوسات، رمضان سے جڑی روایتی اشیاء و برتن خوشبویات، بخور، اور مختلف کھانے پینے کے روایتی پکوانوں اور قہوے کے اسٹالز شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی لوگوں کی فلاحی تنظیموں جیسے سوشل ڈیویلپمنٹ بینک (مقامی مستحق خاندانوں کو مالی مدد فراہم کرتا ہے) اور خیراتی تنظیم تراحم نے بھی اس میلے میں سٹال لگائے ہیں۔سوشل ڈیویلپمنٹ بینک مستحق خاندانوں کو مالی مدد مدد فراہم کرتا ہے جبکہ تراحم (قیدیوں اور ان کے خاندانوں کی مدد کرتی ہے)۔ یہ میلہ رمضان کی راتوں میں بعد مغرب سے قبل از سحری تک پورے مہینے جاری ہے، جہاں مقامی لوگ اپنی روایات کے رنگ میں شاپنگ کرتے ہیں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button