شہنشاہ، مگر معمولی شہری کی زندگی گزارنے کی خواہش
مسٹر بوکاسا 1921ء میں پیدا ہوئے۔ وہ سنٹرل افریقہ کی فوج میں جنرل تھے۔ وہ اپنے عہدے پر قناعت نہ کر سکے ،جنوری 1966ء میں انہوں نے فوجی بغاوت کر دی اور صدر ڈیوڈ ڈائیکو کو معزول کرکے خود سنٹرل افریقہ کے صدر بن گئے۔ جنرل بوکاسا صدر بننے پر بھی قانع نہ ہوئے کیونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ اگلے الیکشن میں وہ صدارت کھو دیں گے۔
چنانچہ 1976ء میں انہوں نے پارلیمنٹ کو ختم کرکے اپنے شہنشاہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ اب انہوں نے تاج پہن لیا اور شہنشاہ بوکاسا کہلائے جانے لگے۔ تاہم مسئلہ اب بھی ختم نہ ہوا۔ اب شہنشاہ بوکاسا کا سامنا اس چیز سے تھا جس کو انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا میں اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
سنٹرل افریقہ کی قیمتی کانیں فرانس کے قبضہ میں تھیں۔ نئے سیاسی نظام میں فرانس کا اپنا اقتصادی مفاد خطرے میں نظر آیا۔ چنانچہ فرانس کی مدد سے 1980ء میں ایک اور فوجی انقلاب آیا اور مسٹر ڈیوڈ ڈائیکو دوبارہ سنٹرل افریقہ کے صدر بنا دیئے گئے۔ جون 1987ء کو بوکاسا کو پھانسی دے دی گئی۔
انقلاب کے بعد مسٹر بوکاسا ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ وہ اکتوبر 1986ء میں دوبارہ سنٹرل افریقہ واپس آئے۔ ملک میں داخل ہوتے ہی انہیں گرفتار کر لیا گیا۔ ان پر بہت سے سنگین الزامات تھے۔ مثلاً 40آدمیوں کو قتل کرنا، سرکاری خزانے سے کروڑوں ڈالر رشوت دینا وغیرہ۔
اسٹیٹ پراسکیوٹر مسٹر جبریل مبودہ نے بینگوئی کی کریمنل عدالت سے کہا کہ مسٹر بوکاسا نے اپنے 14سالہ دورِ حکومت میں جو جرائم کیے ہیں اس کے بعد ضروری ہے کہ انہیں موت کی سزا دی جائے۔ 8جون 1987ء کو مسٹر بوکاسا عدالت میں پیش ہوئے تو انہوں نے اپنا بیان دیتے ہوئے کہا کہ آج میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ معمولی شہری کی حیثیت سے پرامن زندگی گزاروں۔ آدمی اگر قناعت کا طریقہ اختیار کرے تو وہ کبھی ذلت اور ناکامی سے دوچار نہ ہو۔