ادب و احترام گھر کو جنت بنا دیتا ہے
گھر ایک ایسا معاشرتی مرکز ہے جو جنت کی تصویر بھی ہے اور دوزخ کا نمونہ بھی۔ قرآن کی رو سے دوزخ کی آگ کے شعلے چاروں طرف سے گھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں… لیکن گھر کی دوزخ کے شعلے انسانوں کو نظر نہیں آتے… مگر وہ ان کو گھن کی طرح کھا جاتے ہیں۔بے چینی… اضطراب ، مایوسی… بے سکونی جیسی بہت سی کیفیات نے افراد خانہ کو اس قدر ایک دوسرے سے بے گانہ بنا دیا ہے کہ حشر کا سماں معلوم ہوتا ہے۔ غصہ، حسد، تکبر، نخوت،غیبت، بغض وعناد جیسے سینکڑوں روحانی امراض نے افراد خانہ میں بے ادبی اور بداحترامی، افراد میں عدم تعاون اور عدم مطابقت کا باعث ہے… گھر کا چھوٹا سا معاشرہ نظارہ جنت کی بجائے نظارہ دوزخ ہے…
جب معاشرہ کے بیشتر گھروں میں یہ کیفیات نشونما پاتی ہیں تو (باوجود ہر قسم کے بلند معیارِ زندگی کے) تمام معاشرہ بداخلاقیوں کا نمونہ بنتا ہے… یہی بداخلاقیاں افراد معاشرہ کے لیے از خود اس دنیا میں عذاب کا مؤجب بنتی ہیں… گویا یہ عذاب فانی ہے … مگر وہ اسی سے آنے والے ’’ابدی‘‘ عذاب کے مستحق بنتے چلے جاتے ہیں۔
اس کے برعکس باہمی ادب و احترام وہ کنجی ہے جس سے ہر قسم کے تالے کھلتے چلے جاتے ہیں … یہی وہ صراط مستقیم ہے جس پر چل کر افراد میں محبت و پیار کے سُوتے پھوٹتے ہیں … ایثار اور قربانی کے جذبے کارفرما ہوتے ہیں… بغض و عناد کے شعلے ٹھنڈے ہوتے ہیں… احساساتِ محرومی پر صبر کرنا آتا ہے… ہر عمل پر بدنیتی… نیک نیتی میں تبدیل ہو تی ہے… باہمی احترام سے نیکیوں میں اضافہ اور بدیوں میں کمی آتی ہے۔ معیارِ زندگی کے حصول کی دوڑ ختم ہوتی ہے… احترام آدمیت کی تربیت کا شوق پیدا ہوتا ہے … قرابت داروں کے حقوق کی ادائیگی و حفاظت ہوتی ہے… انفرادیت کی بجائے اجتماعیت جلا پاتی ہے… ہر فرد سب کے لیے اور سب ایک کے لیے سوچتے ہیں… ایک گھر ہی نہیں …بلکہ تمام معاشرہ فلاح و بہبود کا نمونہ بنتا ہے …
یہ دنیا و آخرت کی کھیتی ہے… بااَدب ہے تو بانصیب ہے …بے ادب ہے تو بے نصیب ہے … اس دنیا میں بھی اور آنے والی دنیا میں بھی …اچھے اعمال میں سلام کرنا بہت اچھا عمل ہے… غصہ … حسد اور بغض و عناد ختم ہوتا … باادب شخص کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو وہ عفو و درگزر سے کام لیتا ہے… وہ انتقام نہیں لیتا اور اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کرتا ہے … اسے رشتوں کی پہچان ہوتی ہے … وہ محرم اور نامحرم کی تمیز کرتا ہے … وہ ہر شخص کے حقوق کی نہ صرف ادائیگی کرتا ہے …بلکہ ان کا محافظ بھی ہوتا ہے …الغرض وہ گھر کے چھوٹے سے معاشرے میں ادب و احترام کا ایسا بیج بوتا ہے … جس کی کھیتی وہ آنے والی دنیا میں کاٹتا ہے …
وہ گھر کی جنت میں ایسا خادم بنتا ہے … جس کی مثال اس دنیا و مافیہا میں ملنا مشکل ہے… تعلیم و تدریس کے مقدس راستے کی سب سے اہم مثلث بچہ ‘ استاد اور سکول ہے…اگر اس مثلث کے تینوں زاویوں کاتعاون اور توازن برقرار رہے تو تعلیم و تدریس کی نشونما معاشرے اور خصوصی طبقات کو چار چاند لگا دیتی ہے…بعینہ تعلیم و تدریس کی اس مثلث کے زاویوں میں نکھار قائم رکھنے کے لیے ایک اور مثلث بہت اہم کردار ادا کرتی ہے… یعنی بچے ‘ والدین اور گھر… اگر اس مثلث میں کہیں بھی کوئی شکن اور جھول پیدا ہو تو علم نفسیات ایسے گھر کو ’’ٹوٹے ہوئے گھر‘‘ کی اصطلاح سے تشبیہ دیتی ہے… کیونکہ ایسے گھر کے ماحول کے شدید اثرات بچوں کی تعلیم و تدریس کے ماحول پر منفی نتائج کو جنم دیتے ہیں… اسی لیے کامیاب تعلیمی ادارے وہ ہیں … جن کی مثلث گھر کی مثلث سے ہمیشہ منطبق رہتی ہے…
والدین اور اولاد میں محبت بھی ایک کرشمہ ساز عنصر ہے… محبت کا بہاؤ ہمیشہ اوپر سے نیچے کی جانب رہتا ہے… نیچے سے اوپر کی جانب نہیں… انسان میں درحقیقت یہی وہ جبلت ہے … جس کی بناء پر آخری آسمانی کتاب میں اکثر احکامات اولاد کے لیے ہیں…خاص طور پر عہد بلوخت میں اللہ نے بڑوں کے لیے نوجوانوں میں گستاخی کے جذبات جبلی طور پر سموئے ہوئے ہیں… اس عہد زندگی یا کسی بھی عہد زندگی میں والدین کو ’’اُف‘‘ تک نہ کہنا ’’جہادِ اکبر‘‘ سے کم نہیں… دوسری جانب اگر والدین میں کسی لمحہ محبت اور شفقت کا لبریز پیمانہ خالی ہو جائے اور ہر حال میں معاف‘ درگزر اور بخشنے کی خدائی صفات ہاتھ سے چھوٹ جائیں تو ایسی صورت میں گھر سب کچھ ہونے کے باوجود ویران اور آثار عبرت کا نمونہ ثابت ہوتے ہیں…
کامیابی کے لیے ہر وقت اور ہر مقام پر دو چیزیں ضروری ہیں… ایک ایمان اور دوسرے نیک اعمال ایک بنیاد ہے اور دوسری عمارت… جو خوبصورت عمارت کے لیے مضبوط بنیاد کی اشد ضرورت ہے۔ اللہ نے انسان اور کائنات کو پیدا کیا… انسانوں میں باہمی ادب و احترام کی بنیاد ‘اللہ کا ادب و احترام کیا ہے؟ اللہ کو محض اور محض ایک مانا جائے… اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے… اسی لیے شرک کو سب سے بڑی بے ادبی، بداحترامی، بدتمیزی اور ’’ظلم عظیم‘‘ کہا گیا ہے۔