دکھاوے کیلئے نہیں خوش اخلاقی کو عادت بنا لیں
خوش اخلاقی کی دو قسمیں ہوتی ہیں ، ایک یہ کہ جس سے آپ کا کوئی تعلق ہو یا جس سے کوئی فائدہ وابستہ ہو اس کے ساتھ خوش اخلاقی برتنا۔ دوسرے یہ کہ خوش اخلاقی کو اپنی عام عادت بنا لینا اور ہر ایک سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آنا، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔ خوش اخلاقی کی پہلی قسم سے بھی آدمی کو کچھ نہ کچھ فائدہ ملتا ہے، مگر خوش اخلاقی کی دوسری قسم کے فائدے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔
مسٹر اجوانی 1965ء میں کلکتہ کی ایک بڑی دوا ساز فرم میں سیلز مین مقرر ہوئے ۔ ان سے پہلے جو شخص ان کی جگہ پر کام کر رہا تھا اس کو 12سو روپے تنخواہ اور آمدورفت کے لیے ریلوے کا کرایہ ملتا تھا۔ اجوانی نے کہا کہ میں تین ہزار مہینہ لوں گا اور ہوائی جہاز سے سفر کروں گا۔ کارخانہ کے ڈائریکٹر نے کہا کہ یہ تو بہت زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں کام بھی زیادہ کروں گا۔ آپ ایک بار تجربہ کر کے دیکھئے۔ بالآخر ان کا تقرر ہو گیا اور گجرات کا علاقہ ان کے سپرد ہوا۔
اس زمانہ میں گجرات میں ایک لیڈی ڈاکٹر تھی جس کی پریکٹس بہت کامیاب تھی اور اس کے یہاں دواؤں کی کھپت بہت زیادہ تھی ۔ مگر وہ کسی مرد ایجنٹ سے نہیں ملتی تھی۔ مسٹر اجوانی اپنے تجارتی سفر میں مذکورہ شہر کے لیے روانہ ہوئے تو کمپنی کے ڈائریکٹر سے لیڈی ڈاکٹر کا ذکر آیا۔ مسٹر اجوانی نے کہا کہ میں اس سے بھی آرڈر لوں گا۔ڈائریکٹر نے اس کو ان کی سادگی پر محمول کیا۔ اس نے کہا اس سے آرڈر لینا بالکل ناممکن ہے۔ لیڈی ڈاکٹر اس حوالے سے اتنی مشہور ہو چکی تھی کہ لوگوں نے اس کے بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا تھا۔
مسٹر اجوانی اپنے سفر پر روانہ ہو گئے۔ ہوائی جہاز میں ان کی سیٹ سے ملی ہوئی سیٹ پر ایک بوڑھی خاتون تھیں۔ راستہ میں ایسا ہوا کہ بوڑھی خاتون کو کھانسی اُٹھی اور کف آنے لگا۔ بوڑھی خاتون بہت پریشان ہوئی۔ مسٹر اجوانی کو اپنی عام اخلاقی عادت کے مطابق اس خاتون سے ہمدردی پیدا ہوئی اور انہوں نے فوراً اپنا رومال اس کے منہ کے آگے کر دیا۔ اس کا کف اپنے رومال پر لے لیا اور پھر غسل خانہ میں جا کر اسے دھو لیا۔ خاتون اس واقعہ سے بہت متاثر ہوئی۔
اس خاتون کو وہیں جانا تھا جہاں مسٹر اجوانی جا رہے تھے۔ ہوائی جہاز جب وہاں پہنچا اور بوڑھی خاتون باہر آئی تو وہ یہ دیکھ کر پریشان ہوئی کہ اس کو لینے کے لیے کوئی ہوائی اڈہ پر نہیں آیا تھا۔ یہ خاتون کسی بڑے گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، اس کو لینے کے لیے کار کو آنا چاہیے تھا، مگر اس کی آمد کی صحیح اطلاع نہ ہونے کی وجہ سے گھر سے کار نہ آسکی۔
مسٹر اجوانی نے یہاں دوبارہ اس کی مدد کی۔ انہوں نے کہا کہ میں ہوٹل جانے کے لیے ٹیکسی کرا رہا ہوں ۔ آپ اس پر بیٹھ جائیں،میں پہلے آپ کو آپ کے گھر اُتار دوں گا۔ اس کے بعد اپنے ہوٹل چلا جاؤں گا۔ چنانچہ انہوں نے بوڑھی خاتون کو اپنے ساتھ ٹیکسی میں بٹھایا اور اس کو لے کر ان کے گھر پہنچے۔خاتون نے اپنے گھر پہنچ کر ان کا نام اور پتہ پوچھا۔ انہوں نے اپنا نام اور اپنے ہوٹل کا پتہ لکھ کر دے دیا اور اپنے ہوٹل آگئے۔
کچھ دیر کے بعد بوڑھی خاتون کی لڑکی اپنے کام سے فارغ ہو کر گھر پہنچی تو دیکھا کہ اس کی ماں آئی ہوئی ہے۔ اس نے کہا کہ ہم کو آپ کی آمد کی خبر نہ تھی، اس لیے گاڑی ہوائی اڈے پر نہ جا سکی۔ آپ کو تو بہت تکلیف ہوئی ہوگی۔ ماں نے کہا کہ نہیں مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوئی اور اس کے بعد اس نے مسٹر اجوانی کی پوری کہانی سنائی۔
یہ سن کر لڑکی بہت متاثر ہوئی۔ اس نے فوراً مذکورہ ہوٹل کو ٹیلی فون کر کے مسٹر اجوانی سے رابطہ قائم کیا اور کہا کہ ہم آپ کے بہت مشکور ہیں اور رات کا کھانا آپ ہمارے یہاں کھائیں۔ مسٹر اجوانی مقررہ پروگرام کے مطابق خاتون کے مکان پر پہنچ گئے۔ جب لوگ کھانے کی میز پر بیٹھے اور تعارف ہوا تو معلوم ہوا کہ بوڑھی عورت کی لڑکی وہی لیڈی ڈاکٹر ہے جس کو مرد ایجنٹوں سے نفرت تھی اور وہ مرد ایجنٹوں سے ملاقات تک کی روادار نہ تھی۔ جب اس کو معلوم ہوا کہ مسٹر اجوانی دوا ساز کمپنی کے سیلز مین ہیں تو اسی وقت اس نے خود اپنی طرف سے دواؤں کا ایک بڑا آرڈر لکھوا دیا۔ اور کہا کہ ہمارے یہاں دواؤں کی بہت کھپت ہے آپ تو ہم کو مستقل گاہک سمجھ لیجئے اور ہر مہینہ دوائیں بھیجتے رہیے۔
مسٹر اجوانی کھانے اور ملاقات سے فارغ ہو کر ہوٹل واپس آئے اور اسی وقت کلکتہ میں اپنے ڈائریکٹر کو ٹرنک کال کی۔ انہوں نے اپنے ڈائریکٹر کو ٹیلی فون پر بتایا کہ مذکورہ لیڈی ڈاکٹر سے میں نے اتنے ہزار کا آرڈر حاصل کر لیا ہے۔ ڈائریکٹر نے فوراً کہا تم غلط کہہ رہے ہو، ایسا تو کبھی نہیں ہو سکتا۔ تاہم اگلی ڈاک سے جب ڈائریکٹر کے پاس مذکورہ لیڈی ڈاکٹر کا چیک اور اس کا دستخط شدہ آرڈر پہنچا تو اس کو معلوم ہوا کہ وہ واقعہ بالفعل پیش آ چکا ہے جس کو وہ اب تک ناممکن سمجھے ہوئے تھے۔
21نومبر 1980ء کی ایک ملاقات میں جب مسٹر اجوانی سے پوچھا گیا کہ آپ کو تجارت کا بہت تجربہ ہے ۔ یہ بتائیے کہ تجارت میں کامیابی کا راز کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: میٹھی زبان، اچھا سلوک۔ اور اس وقت بھی جب کہ بظاہر اس کا کوئی فائدہ نظر نہ آتا ہو۔ میٹھی زبان اور اچھا سلوک ہر حال میں مفید ہے۔ لیکن اگر وہ آدمی کا عام اخلاق بن جائے تو اس کے فوائد کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔