میری محبت بددعا کرنے سے انکار کرتی ہے
ایک نوجوان کی نہایت خوبصورت لڑکی سے شادی ہوئی۔ گھر بسانے کے بعد لڑکی کو اندازہ ہو گیا کہ اُس کا شوہر اُس پر فریفتہ ہے۔ اسے دل کی گہرائیوں سے چاہتا ہے اور اُس کے بغیر ہرگز نہیں رہ سکتا۔ اسی لیے وہ اپنے شوہر کی ماں کے ساتھ ہمیشہ بے رخی اختیار کرتی تھی۔ اُس کی ساس ایک بوڑھی خاتون تھی۔ وہ اس دنیا میں بس چند دنوں کی مہمان تھی۔ جو بھی دیکھتا اُسے اس کے بڑھاپے پر ترس آ جا تا۔ وہ اس عمر میں اپنے بیٹے اور بہو کی خدمت کی محتاج تھی۔ مگر ساس کی خدمت کیا ہوتی ہے؟ اس کی بہو نے اس بارے میں کچھ سیکھا ہی نہیں تھا۔
دوسری جانب نوجوان بیٹے کا حال بھی قابلِ تعریف نہیں تھا۔ وہ بھی اپنی ماں کی خدمت پوری طرح نہیں کرتا تھا۔ مگر بیٹے کی طرف سے کبھی ماں کو شکایت نہیں ہوتی تھی، البتہ بہو کی کڑوی کسیلی باتیں سن کر اسے تکلیف ضرور ہوتی مگر وہ حرف شکایت زبان پر لانا مناسب نہیں سمجھتی تھی۔
بہو نے جب دیکھا کہ کئی سال ایک ساتھ گزارنے کے باوجود بیٹا ماں سے نفرت نہیں کرتا اور اُس کے لاکھ چڑانے پر بھی ماں کو بُرا بھلا نہیں کہتا تو ایک روز وہ ناراض ہو کر بیٹھ گئی۔ شوہر جب کام کاج سے فارغ ہو کر گھر واپس آیا تو بیوی کو افسردہ دیکھ کر پوچھا: کیوں کیا بات ہے، آج روزانہ کی طرح خوش نہیں ہو؟ بیوی نے جواب دیا: یہ تمہاری بوڑھی ماں جو گھر میں رہتی ہے۔ اس کے ہوتے ہوئے کیا کوئی اس گھر میں ہنسی خوشی رہ سکتا ہے؟ اور ہاں بہت ہو گیا‘ ہمارا تمہارا ایک ساتھ جس قدر گزارا ہو سکتا تھا وہ ہو گیا۔ اب میں ہر گز گوارہ نہیں کر سکتی کہ میرے ساتھ تمہاری ماں بھی اس گھر میں رہے۔ جب تک تم گھر سے اِس بڑھیا کو نہ نکال دو، میں اور تم ایک ساتھ نہیں رہ سکتے۔
’’جب بیوی نے شوہر سے بار بار یہی کہا کہ میں تمہاری ماں کے ساتھ اس گھر میں نہیں رہ سکتی تو اس نے اپنی ماں کو رات کے اندھیرے میں کندھے پر اُٹھایا اور خونخوار جانوروں والے جنگل میں لے جا کر پھینک دیا، پھر چند منٹ کے بعد وہ اجنبی بن کر ماں کے پاس آیا تو وہ زار و قطار رو رہی تھی۔ اس نے اپنی آواز بدل کر بڑھیا سے پوچھا:
’’بڑھیا ! کیوں رو رہی ہو؟‘‘
بڑھیا کہنے لگی:
’’میر ابیٹا ابھی ابھی مجھے یہاں پھینک کر چلا گیا ہے، مجھے خوف ہے کہ کہیں اُس کو کوئی شیر چیر پھاڑ کر نہ کھا جائے!‘‘
اس نے کہا: ’’تم اپنے اُس بیٹے کے لیے رو رہی ہو جس نے تم سے یہ بدسلوکی کی ہے کہ تمہیں اس خطرناک جنگل میں لا پھینکا؟ تم اس کے لیے بددعا کیوں نہیں کرتیں!‘‘
وہ کہنے لگی:
’’میری محبت اس کے لیے بددعا کرنے سے انکار کرتی ہے!‘‘
بڑھیا کا کہا ہوا یہ جملہ اسی روز سی ضرب المثل بن گیا اور عربوں میں یہ مثل مشہور ہو گئی۔ (مجمع الامثال234/1)
قارئین کرام!ذرا ماں کی محبت کا اندازہ کریں کہ اس کے شقی القلب بیٹے نے اپنی بیوی کی باتوں میں آ کر ماں کو ایک خطرناک وادی میں پھینک دیا مگر ماں کی محبت کو سلام کہ اُسے جنگل میں بھی اپنی نہیں بلکہ بیٹے کی فکر کھائے جا رہی تھی کہ کہیں بیٹے کو واپس جاتے جاتے کوئی شیر نہ پھاڑ کھائے۔