بیوی کے کہنے پر بیٹا والدین کا نافرمان بن گیا

کوئی بات نہیں ہمارے بیٹے نے ابھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا ہے۔ کچھ اور وقت گزرے گا تو سدھر جائے گا۔ شادی ہو جائے گی تو خود اچھے اخلاق کا مالک اور ماں باپ کا مطیع و فرماں بردار بن جائے گا۔

یہ وہ جملہ ہے جو میں اپنے بوڑھے والدین سے اکثر سنا کرتا تھا۔ جب بھی میری طرف سے انہیں کوئی اذیت پہنچتی اور وہ مجھ پر ناراض ہوتے، تو اُن کی زبان پر صرف یہی جملہ ہوتا تھا کہ وقت گزرے گا تو یہ خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔

میں اب جوان ہو چکا تھا۔ سوجھ بوجھ والا جوان! مگر میں نے اپنے والدین کے کہنے پر کبھی عمل نہیں کیا۔ اُن کے نصیحت آمیز کلمات مجھے گراں گزرتے تھے۔ میں ان سب کی باتوں پر کبھی کان نہیں دھرتا تھا۔ دل میں جو بھی آتا کر گزرتا تھا۔ لیکن میرے والدین نے میری نافرمانی پر مجھے کبھی روکا نہ ٹوکا۔ انہیں میرے بارے میں یہی حسنِ ظن تھا کہ جب میری شادی ہو جائے گی تو میں سدھر جاؤں گا اور اُن کی اطاعت کروں گا۔

ایک دن آیا کہ میری شادی ہو گئی اور میرے حالات بھی بدل گئے۔ میں پہلے کی نسبت اب بہت بدل چکا تھا۔ مگر اطاعت و فرمانبرداری کے حوالے سے نہیں بلکہ بالکل اس کے برعکس! میں ہر طرح سے اپنے والدین کے لیے نافرمان و نالائق بن چکا تھا۔ والدین سے میری نفرت اور اُن کے ساتھ ناروا سلوک کرنے میں میری شریک حیات کا بڑا عمل دخل تھا۔ بجائے اس کے کہ وہ مجھے والدین کے والدین کا درس دیتی، مجھے والدین کی خدمت کرنے کی نصیحت کرتی، اُلٹا وہ مجھے ماں باپ سے نفرت دلایا کرتی تھی۔

وہ میرے والدین کو حقارت سے دیکھا کرتی تھی۔ میری بیوی خوبصورت تو تھی مگر خوب سیرت نہیں تھی۔ غرور اور تکبر اس کی رگ رگ میں رچا بسا تھا۔ وہ بسا اوقات ہماری زبان کا بھی مذاق اُڑایا کرتی تھی۔ دراصل اُس نے مغربی ماحول میں تربیت پائی تھی۔

میں اپنے والدین کے بارے میں اُس کے حقارت آمیز جملے سنتا تھا اور نظر انداز کر دیتا تھا۔ اب جب کہ وہ میری زندگی سے دور جا چکی ہے، مجھے احساس ہوتا ہے کہ اُس نے میرے والدین کو کس کس انداز میں تکلیف دی تھی اور اُن کے جذبات کو کیسے کیسے نازیبا الفاظ سے ٹھیس پہنچائی تھی۔ جب کبھی اُس کی سہلیاں اس سے ملنے کے لیے گھر آتیں تو وہ اُن کے پاس بیٹھ کر اشاروں کنایوں میں میرے والدین کا مذاق اُڑاتی اور اُن کی طرف حقارت آمیز نگاہوں سے اشارے کرتی تھی۔ لیکن میرے والدین کا عالی ظرف اور بڑا پن دیکھیں کہ وہ بہو کے اشارے سمجھنے کے باجود کبھی اُس کا جواب نہیں دیتے تھے۔

میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے خود ہی اپنی بیوی کو سر پر چڑھا رکھا تھا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ میری وجہ سے میری بیوی کے دل کو کسی قسم کا دکھ پہنچے۔
ایک رات ہم دونوں میاں بیوی اپنے ننھے بچے کے ساتھ ٹہلنے نکلے۔ اُس روز میری والدہ کی طبیعت ناساز تھی۔ جب ہم میاں بیوی گھر سے نکلنے لگے تو میرے والد نے والدہ کے بارے میں کوئی بات بتانا مناسب نہیں سمجھا۔ انہیں معلوم تھا کہ میںاُن کی بات سننے کو تیار نہیں ہوں گا۔

رات گئے ہم میاں بیوی گھر پہنچے ۔ میں نے دیکھا کہ والد صاحب گھر میں تنہا ہیں، اُن کے ساتھ امی جان نہیں ہیں۔ میرے والد کا چہرہ اُداس تھا۔ دور ہی سے دیکھ کر لگتا تھا کہ وہ بہت غمگین ہیں۔ میں نے بادل نخواستہ اُن سے پوچھا کہ آج گھر میں اکیلے ہیں؟
والد صاحب کہنے لگے:
بات یہ ہے کہ جب تم میاں بیوی گھر سے باہر جا رہے تھے، اُس وقت تمہاری ماں کی طبیعت خراب تھی۔ اس کے پیٹ میں درد ہو رہا تھا۔ درد کی شدت سے وہ بہت بے چین تھی۔ اس کی پریشانی اور درد جب حد سے بڑھ گیا تو میں نے پڑوسی کے دروازے پر دستک دی تاکہ کسی طرح تمہاری ماں کو ہسپتال پہنچایا جا سکے۔ پڑوسی کے تعاون سے میں نے اسے ہسپتال میں داخل کرادیا ہے۔ ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ مریضہ کی حالت ابھی خطرے میں ہے، اس لیے اسے خاص نگہداشت کے کمرے میں رکھا گیا ہے۔

میں اپنے والد کی یہ باتیں سن ہی رہا تھا کہ میری بیوی نے پیچھے سے میرا دامن پکڑکر کھینچا اور میں اپنے والد کی بقیہ باتیں سنے بغیر اس کے ساتھ اپنے کمرے میں داخل ہو گیا۔ بیوی نے فوراً دروازہ بند کر دیا جب کہ میرے والد گھر کے باہر برآمدے میں کھڑے تھے۔ میری بیوی کہنے لگی کہ چلو ابھی آرام کرتے ہیں، صبح ہو گی تو ہسپتال چلے جائیں گے۔
صبح ہوئی تو ماں کے انتقال کی اطلاع ملی۔ مجھے اس قدر صدمہ ہوا کہ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا تھا۔

اب میرا احساس جاگ چکا تھا۔ میں نے بہت غور و فکر کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ میں نے اپنے والدین کی خدمت میں کوتاہی کی ہے اور آج بھی کوتاہی برت رہا ہوں؟ کیا وجہ ہے کہ میری ماں ناراضی کے عالم میں ہی مجھ سے ہمیشہ بچھڑ گئی۔ اب میں کیوں کر اپنی والدہ کی خدمت کر سکتا ہوں جب کہ وہ اس دنیا میں موجود ہی نہیں؟ والد یا والدہ سے میری دوری کا سبب کیا ہے؟

غور و فکر کے بعد مجھے معلوم ہو گیا کہ دراصل والدین کی خدمت میں کوتاہی اور نافرمانی کا سبب صرف میری بیوی ہے۔ میں نے سوچا کہ ایسی بیوی کا کیا فائدہ جو مجھے والدین سے دور کر دے اور مجھے اللہ کی لعنت کا مستحق بنا دے؟ چنانچہ میں نے فوراً اس سے علیحدگی کا فیصلہ کیا۔

الحمد للہ آج میں اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ اپنے والد کے سائے میں رہ رہا ہوں۔ میں اپنے والد کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں نے ماضی میں اپنے والدین کی خدمت میں جو کوتاہی کی تھی، اس کی تلافی کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہوں۔ میں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہی اے اللہ! میری والدہ پر رحمتوں کی بارش برسا اور مجھ سے اپنی والدہ کے سلسلے میں جو کوتاہی ہو چکی ہے اسے معاف فرما۔ میں اپنے کرتوت پر بے حد شرمندہ اور بے حد پریشان ہوں۔ لیکن کیا میری ندامت میری ماں کو اس دنیا میں واپس لا سکتی ہے تاکہ میں اپنی غلطی کی معافی مانگ کر اپنی اصلاح کر سکوں، یا اس کی خدمت کرکے اپنی کوتاہی کا ازالہ کر سکوں؟

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button