سیاسی بحران سے نمٹنے کا جامع لائحہ عمل
موجودہ سیاسی بحران، ملک کو بڑے پیمانے پر انتشار اور عدم استحکام سے دوچارکر سکتا ہے
پاکستان اگست 1947ء سے ہی کئی طرح کے بحرانوں سے دوچاررہا ہے۔ ملک کے موجودہ سیاسی حالات اس کی تازہ مثال ہیں۔ تاہم ہر بحران جس طرح اگرایک چیلنج ہوتا ہے تو وہیں وہ اپنے ’’آفٹر افیکٹس‘‘ کی وجہ سے یاد بھی رہتا ہے۔ ایسے بحرانوں میں محدود سوچ، دوراندیشی کا فقدان، بحران کا غلط اندازہ لگانے اور اس سے غیرمناسب طریقے سےنمٹنے کی صورتحال بھی یادوں کا حصہ بن جاتی ہے۔
اگر کوئی ملک کمزور یا ناکام ریاست کی طرح ہو تو اس کی وجہ یہی بحران ہی ہوتے ہیں۔ کیوں کہ وہاں کے راہنمابحرانوں سے بہتر انداز میں نمٹنے کے قابل نہیں ہوتے۔ امریکی ماہر سیاسیات مارک ایمسٹٹز نے ان بحرانوں کی تعریف میں اسے ایک ایسی صورتحال قرار دیا ہے، جس میں کسی ملک کے اہم مفادات کے لیے خطرہ، مختصر رکاوٹیں، طاقت کا ممکنہ استعمال اور اعلیٰ حکومتی قیادت کا عمل دخل شامل ہوتا ہے۔
آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق بحران دراصل ’’ فیصلہ کن لمحہ، خطرے کا وقت اور بڑا ہی مشکل، ایک اہم موڑ ہوتا ہے‘‘۔ بحران کا مطلب ایسی صورتحال بھی ہے جب پرتشدد واقعات اور جنگ چھڑنے کا شدید اندیشہ لاحق ہوجائے۔ بحران کا باعث بننے والے بنیادی عوامل میں کمزور فیصلہ سازی، کمزور اعصاب، الجھنیں،، پست حوصلہ، وقت کی کمی اور قائدانہ خصوصیات کے ساتھ واقعات پرکنٹرول نہ ہونا بھی شامل ہے۔
بحران کے لیے اٹھائے جانےانتظامات کا مطلب یہ ہے کہ ’’جب متعلقہ فریق مؤثر فیصلہ سازی، لائحہ عمل، صبر و استقامت، ہوشیاری، سفارت کاری اور بہترین طریقوں کوبروئے کار لائیں‘‘۔ تاہم بحران سے بہتر اندازمیں نمٹنے کا نظام صرف اسی صورت میں مؤثر ثابت ہوتا ہے جب بحران کے بارے میں مکمل آگاہی، بصیرت، تجزیاتی مہارت، تنقیدی سوچ، ٹیم ورک، صحیح انتخاب اور اداروںکا واقعات پرکنٹرول ہو۔
جس سیاسی صورت حال کو بطور اصطلاح ’’ تمام بحرانوں کی ماں‘‘ کہا جاتا ہے، وہ آج کل گذشتہ کئی دنوں سے پاکستان کو درپیش ہے، ملک میں حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اقتدار کے لیے رسہ کشی مسلسل جاری ہے۔ اگر دونوں فریق اب بھی بدستور اسی طرح ایک دوسر ے کے خلاف صف آراء رہے تو اس بات کا خدشہ ہے کہ ملک بڑے پیمانے پر انتشار اور عدم استحکام سے دوچار ہو سکتا ہے۔ جس کا آخر کار بوجھ اور نقصان پاکستان کے22کروڑ عوام کو اٹھانا پڑے گا۔ یقیناً جب دونوں فریق ناپختگی اور ناشائستگی کی تمام حدیں عبور کریں گے تو اس کا نتیجہ اندرونی خلفشار کی صورت میں نکلے گا، جس سے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ مزید خراب ہو گی۔
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں ایسےبحرانوں سے نمٹنے کا کوئی جامع میکنزم کیوں موجود نہیں؟ جو قبل از وقت اس سے نہ صرف خبردار کرے بلکہ اس سے بہتر طور پر نمٹنے کے لیے بروقت مدد بھی فراہم کرے۔ اسی طرح پاکستان کی سیاسی جماعتیں اور دیگر ریاستی اداروں کے پاس بحران سے نمٹنے کی صلاحیت پر بھی سوال اٹھتے ہیں، جو بتاتے ہیں کہ موجودہ نظام فوری طور پر بحران پر قابو پانے میں ناکام کیوں رہتا ہے؟
جب سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو مارچ 1977ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کی پُرتشدد تحریک کے دوران ایک سنگین بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا تو وہ ذہین فطین اور دور اندیش ہونے کے باوجود اُس بحران سے مؤثر طریقے سے نمٹنے میں کیارہے تھے؟ یہ وہ سوال ہے جس کے اب تک سیکڑوں جواب ہیں مگر سارے ہی ابھی تک ادھورے ہیں۔ اب (موجودہ یا سابق) وزیراعظم عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں پیش کی گئی عدم اعتماد کی تحریک پر حکومت اور اپوزیشن دونوں انا پرستی کی سولی پر لٹکے ہوئے نظر آئے،جن کے درمیان ثالث بھی موجود نہیں؟
جب اپوزیشن نے وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش کی تھی توتوقع کی جا رہی تھی کہ حکومت کو اس چیلنج کا ہمت اور خوش اسلوبی سے مقابلہ کرے گی لیکن پی ٹی آئی کے ناراض اراکین قومی اسمبلی اور اپوزیشن کےنے پی ٹی آئی کی قیادت کی صفوں میں عدم تحفظ کو مسلسل قائم رکھا،یہ گھبراہٹ خود اپوزیشن کی صفوں میں بھی عیاں تھی۔یادرہےتحریک عدم اعتماد معمول کے سیاسی عمل کا حصہ اور آئینی اور قانونی طور پر جائز طریقہ ہے، اسے کسی طرح بھی روکا نہیں جاسکتا لیکن عدم تحفظ اور اقتدار کی ہوس نے اپوزیشن اور حکمران جماعت کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا تھا اور وہ اس حقیقت سے مسلسل نظریں چرا رہے تھے۔ پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں جمہوریت اور سیاسی عمل کے دوران ہمیشہ سے بدترین سیاسی پولرائزیشن رہی ہے۔
موجودہ بحران سے تین طرح کے خطرات جنم لےچکے ہیں ،جن کے پیش نظربحران سے نمٹنے کے مؤثر لائحہ عمل کی اب تک اشد ضرورت ہے، سب سے پہلے، جن مسائل پر حکومت اور اپوزیشن کو توجہ مرکوز کرنی چاہیے وہ مکمل طور پر نظر اندازہو رہے ہیں۔ پیٹرول ،بجلی اور گیس کی قیمتوں میں کمی،بدعنوانی کا خاتمہ، اقربا ء پروری کا قلع قمع، ناقص نظم ونسق میں پائے جانے والے سقم، قانون کی حکمرانی کا فقدان اور متوازن خارجہ پالیسی کے چیلنجز سمیت اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے تدارک سمیت دیگر درجنوں کے حساب سے کام ادھورے ہیں، جن کو ترجیح بنانے کی ضرورت ہے مگر اقتدار کے بھوکے راہنما ناکام ہیں۔ اس وقت بھی سیاسی جوڑ توڑ کو مزید پکا کرنے اور عہدوں کی بندر بانٹ کا عمل جاری ہے اور اقتدار کی یہ ہوس جاری سیاسی بحران کی شدت کو مزید بڑھا رہی ہے۔
یہ بات صدیوں سے طے ہے کہ جب اہل، دیانتداراور بصیرت والی قیادت کا فقدان ہوتا ہے تو اس کا نتیجہ بحرانوں سے غلط طریقے سے نمٹنے کی صورت میں جونکلتا ہے، اُس کانتیجہ خوفناک ہی نکلتا ہے۔ مثلاً 1971 میں مشرقی پاکستان الگ ہوگیا تو اور1977 میں ملک میں ایک طویل آمریت شروع ہوگئی، اگر جنرل ضیاء الحق زندہ رہتے توملک میں جمہوریت کا دوبارہ آغاز کبھی نہ ہوتا۔
آج انسانی ترقی کے اشاریوں کی فہرست میں پاکستان کا 144 واں درجہ ہےتو انسانی سلامتی، انسانی حقوق اور پرسیپشن کرپشن انڈیکس میں اس کی خراب کارگردگی بھی سیاست دانوں کا منہ چڑا رہی ہے۔ یہ سب کچھ ہماری حکومتوں اور اُن کی اپوزیشن جماعتوں کے غیر سنجیدہ اور غیرسیاسی رویے کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح دیگر ریاستی ادارے اور کردار بھی بحران سے نمٹنے میں دلچسپی لیتے نظر نہیں آرہے ،وہ اپنی مخصوص مصلحتوں کی وجہ سے کام نہیں کر تے اور یوں نچلی سطح پر مسائل خود رو گھاس کا ایک مہیب جنگل بن جاتا ہے۔
دوسرا یہ آج پاکستان میں سیاسی سطح پر وقت دویا دو سے زیادہ متحارب فریقوں کے درمیان ایک’’بفرزون‘‘ جیسی صلاحیتوں کی حامل قدآور شخصیات یا اداروں کی عدم موجودگی نے بحرانوں کو مزید سنگین بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ایسےلگتا ہے کہ قیادت کا ایک مہیب خلا ءموجود ہے۔پھر ایسی کوئی سماجی قوت بھی نہیں جو حکومت اور اپوزیشن پر ایسی منفی سرگرمیوں پر اپنا دباؤ ڈال سکے ۔آج ملک کی ساکھ اور معیشت کو جونقصان پہنچے گا ،اُس کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔
اگر عمران خان کی حکومت نیب اور ایف آئی اے سے متعلق قوانین میں اصلاحات کر کے اپوزیشن کے رہنماؤں کا احتساب کرتی توحکومت لوگوں کے سماجی اور معاشی حالات کو بہتر بنانے میں مدد ملتی۔ اب پونے چار سال گزرنے کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت کی ساکھ پر اس ضمن میں سوالیہ نشان لگائے جائیں گے۔ اگر حقیقی مسائل کو حل کرنے پرپہلےہی بھرپور توجہ دی جاتی تو معاشرے میں معیاری تبدیلیوں کا گراف بہت بلند ہوتا۔
تیسرایہ کہ بحران اور بحران کے انتظامات کے بارے میں مطلوبہ مہارت، علم اور تجربہ بھی ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے ناگزیرہوتا ہے تاکہ بحرانوں سے مناسب طریقے سے نمٹا جا سکے۔سیاسی بحرانوں کی حرکیات کو سمجھنے میں شراکت داروں بشمول قانون سازاداروں کی جانب سے اختیار کیے گئے غیر سنجیدہ رویے نے ملک کی بقاء کو داؤ پر لگا دیاہے۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ملک میں موجودہ سیاسی بحران سے نمٹنے کے لیے وقت ہاتھ سے نکل چکا ہے اوراب ہمیں سنگین نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ لیکن یہ بات شاید انتہا پسندی کے زمرے میں شمارہوگی ، اب بھی تمام سیاسی جماعتوں کو عدلیہ اور فوج کے نظم وضبط کی تقلید کرنی چاہیے۔جو سیاسی رہنماؤں کو درپیش مسائل پر ہوشیاری، بردباری اوردور اندیشی سے کام لینے کے ساتھ درمیانی راستہ نکالنے کا سبب بنتی ہے۔ضرورت اس امرکی ہے کہ اب موجودہ حکومت اور موجودہ اپوزیشن دونوں کو چاہیے کہ وہ دانشمندانہ اور ذمہ دارانہ طرز عمل اپناتے ہوئے ملکی بقاء کےلیے ایک دوسرے تعاون کریں۔