والد کی خدمت کیلئے ہر تمنا قربان کر دی
یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ یہ واقعہ سعودی عرب میں پیش آیا۔ جس نے بھی یہ واقعہ دیکھا یا سنا، متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔ اس واقعے سے اس نوجوان کی شخصیت نکھر کر سامنے آتی ہے جس نے اپنی جوانی کو باپ کی خدمت کے لیے وقف کر دیا اور اپنی ملازمت کو بھی بالائے طاق رکھ دیا۔ یقینا وہ اپنے باپ کا مطیع و فرمانبردار بیٹا تھا۔
واقعے کی تفصیل یہ ہے کہ ایک شخص ایسے مرض میں مبتلا ہو گیا جس کی وجہ سے اس کا خون جم گیا۔ اس میں چلنے پھرنے اور کام کاج کرنے کی طاقت نہیں رہی۔ یوں وہ آدمی پابندِ بستر ہو کر رہ گیا۔ اپنے ملک میں اس کے علاج کے لیے کوئی خاطر خواہ سہولت موجود نہیں تھی۔ چنانچہ اس کے بیٹوں نے صلاح مشورے کے بعد اپنے والد کو علاج معالجے کی غرض سے بیرونِ ملک لے جانے کا ارادہ کر لیا۔
ڈاکٹروں نے بہت کوشش کی تھی کہ ان کے والد کا علاج ملک ہی میں ہو جائے۔ مگر انہوں نے آخر میں جو رپورٹ دی اس سے پتہ چلا کہ مریض کا علاج ملک بھر میں کسی جگہ نہیں ہو سکتا، البتہ بیرونِ ملک علاج ہونے کا امکان ہے۔ مگر علاج میں کامیابی ہونے کے باوجود مریض نارمل حالت میں نہیں آ سکتا‘ بلکہ وہ پابندِ بستر ہی ہو کر رہے گا۔ اس کے لیے چلنا پھرنا اور حرکت کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ حتیٰ کہ وہ علاج کے بعد بھی بات چیت کرنے سے قاصر رہے گا۔
بیٹوں نے جب ڈاکٹروں کی رپورٹ دیکھی تو انہیں بڑی تشویش ہوئی۔ وہ پریشان نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے اپنے والد کے بارے میں باہم مشورہ کیا۔ ان کے سامنے یہ ایک سوال تھا کہ باپ کی خدمت کے لیے اتنے دنوں تک باہر کیسے رہا جا سکتا ہے۔ ابھی ان کے درمیان یہی موضوع زیرِ بحث تھا کہ ایک بیٹے نے کہا:
’’میں اپنے والد کے ساتھ ہسپتال میں رہوں گا۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جب تک ان کی زندگی باقی رہے گی میں اس وقت تک ان کی خدمت کرتا رہوں گا۔اس لیے آپ بھائیوں سے گزارش ہے کہ آپ لوگ اس بارے میں بالکل بے فکر رہیں کہ والد محترم کے ساتھ کون رہے گا۔ اب آگے کی کارروائی کے بارے میں گفتگو کریں۔‘‘
یہ لڑکا اُس مریض کا چوتھا بیٹا تھا۔ اس کی عمر کوئی پچیس اور تیس سال کے درمیان تھی۔ یہ برسرِ روزگار تھا، البتہ اس کی شادی ابھی نہیں ہوئی تھی۔
بھائیوں نے جب اپنے نوجوان بھائی کی بات سنی تو ان کے ذہن میں طرح طرح کے سوالات ابھرے ۔ وہ آپس میںکہہ رہے تھے کہ کیا واقعی ہمارا بھائی اتنی طویل مدت تک والد محترم کی خدمت کے لیے ذہنی طور پر تیار ہے؟ یا یہ محض ایک جذباتی بول ہے جیسا کہ ایسے موقع پر عام طور پر بول دیاجاتا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بھائی والد محترم کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر جذباتی حالت میں ایسا کہہ رہا ہے۔
اگر مان بھی لیا جائے کہ واقعی وہ اپنی بات میں سچا اور پکا ہے تو پھر اس کی نوکری کا کیا بنے گا؟ اچھی بھلی سروس کرتا ہے۔ اسی سروس کے عوض وہ اپنے خواب شرمندۂ تعبیر کر سکتا ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس کے بہت سارے دوست احباب ہیں ۔ وہ سفر بھی کرتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ نوجوان ہے، جس کے مستقبل کے لیے نہ جانے کتنے تصورات ہیں جنہیں وہ عملی جامہ پہنانا چاہتا ہے۔ یہ علاج چند دنوں یا چند ماہ میں مکمل ہونے والا بھی نہیں۔ ایسی صورت میں اس کا فیصلہ بڑا حیرت انگیز ہے! … غرض بھائیوں کو اس نوجوان کا فیصلہ ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ لیکن نوجوان نے انہیں قائل کر لیا کہ سچ مچ وہ اپنے والد کی خدمت کے لیے ہسپتال میں رہنے کو تیار ہے۔ سارے بھائی اس کے جواب سے مطمئن ہو گئے۔
اس کے بعد اب انہوں نے اگلے مرحلے کی تکمیل کی اور والد کو علاج کی غرض سے بیرونِ ملک بھیج دیا۔ والد کے ساتھ وہ نوجوان بھی تھا۔ وہی رفیقِ سفر بھی تھا اور وہی ہسپتال کا رفیق بھی۔ والد کو ہسپتال میں داخل کرانے کے بعد وہ انہی کی خدمت میں رہنے لگا۔ وہ ڈاکٹروں کی ہدایت کے مطابق اپنے والد کو دوا دیتا، کھانا کھلاتا، پانی پلاتا اور صفائی کا اہتمام کرتا۔ چوبیس گھنٹے وہ والد ہی کی خدمت میں رہتا۔ جب اس کے والد دواپی کر سو جاتے تو وہ آخر میں اپنے بیڈ پر آرام کرنے کے لیے لیٹ جاتا۔ صبح والد کی آنکھ کھلنے سے پہلے ہی وہ نیند سے بیدار ہو جاتا۔ اور پھر روزانہ کے معمولات شروع ہو جاتے۔
یہ کوئی ہفتہ عشرہ کی بات نہ تھی، ماہ دو ماہ کا معاملہ نہ تھا۔ نہ سال دو سال کی بات تھی، بلکہ اس نے مسلسل تیرہ برس ہسپتال میں اپنے والد کی خدمت میں بسر کر دیے۔ وہ اپنے والد کے ساتھ انتہائی محبت اور احترام سے پیش آتا۔ اس نے کبھی والد کو یہ گمان تک نہ ہونے دیا کہ وہ ان کی خدمت سے عاجز آ گیا ہے۔ بلکہ اس کی اخلاق بھری خدمت دیکھ کر والد سر اُٹھا کر کھلی آنکھوں سے اُسے دیکھتا تھا مگر اس کی زبان بیٹے کا شکریہ ادا کرنے سے عاجز تھی، اس لیے وہ بیٹے کو انتہائی محبت کی نگاہ سے دیکھتا تھا اور منہ سے کچھ نہ بولتا تھا۔
تیرہ سال کے بعد والد کا انتقال ہو گیا۔ بیٹے نے اپنے والد کی تیرہ سال تک جس طرح خدمت کی، اس کا چرچا پورے ہسپتال میں تھا۔ ہسپتال میں جو بھی آتا وہ اس نوجوان کے ولولۂ خدمت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتا۔ اس طرح اس نوجوان کی عمر کوئی چالیس سال سے بھی زیادہ ہوگئی اور وہ مسلسل والد ہی کی خدمت میں مصروف رہا۔ اس نے شادی بھی نہیں کی۔ شادی کے لیے اسے فرصت ہی نہیں مل سکی۔ جب یہ نوجوان ہسپتال میں اپنے والد کے ساتھ داخل ہوا تو اُس وقت اس کی عمر ستائیس اٹھائیس سال کی تھی۔ لیکن جب وہ ہسپتال سے نکلا تو اس کی عمر چالیس سال سے تجاوز کر چکی تھی۔
اس نوجوان کی دنیا ہسپتال تک ہی محدود تھی۔ ہسپتال کا ایک ایک فرد اسے جانتا تھا لیکن ہسپتال کے باہر والی دنیا اُس سے بے خبر تھی۔ حتیٰ کہ اب باپ کی وفات کے بعد والی زندگی بھی ایسی تھی کہ اسے دنیا والے یادنہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ شادی شدہ نہیں تھا، نہ اس سے آگے کوئی نسل چل سکی۔ یار دوستوں سے اس کے تعلقات نہیں رہے۔ والد کی خدمت کے لیے مسلسل ہسپتال میں رہنے کے سبب باہر کی دنیا میں اس کا جو امیج تھا وہ برقرار نہیں رہا۔ اس کے بڑے بڑے لوگوں سے تعلقات تھے، وہ بھی منقطع ہو کر رہ گئے۔
یہ درست ہے کہ دوست احباب سے اس کے تعلقات منقطع ہو گئے تھے۔ یہ سچ ہے کہ ہسپتال کے باہر اس کے جاننے پہچاننے والوں کی تعداد کم، بلکہ نہ ہونے کے برابر تھی۔ یہ بھی صحیح ہے کہ آگے اس کی نسل بھی نہیں چل سکی جس کی وجہ سے بعد میں اس کا تذکرہ ہی موقوف ہو گیا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ والد سے اس کی ہمدردی اور محبت کو آسمان پر قیامت تک یاد کیا جا تا رہے گا اور والد کی خدمت کے صلے میں اس کا نام ابد تک چمکتا رہے گا۔ کیونکہ اپنے والد کی خدمت کے لیے اس نے اپنی ہر تمنا قربان کر دی تھی۔ یہ ساری قربانی اس نے اللہ کی رضا کے حصول کے لیے دی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ماں باپ کا ایسا ہی خادم، مطیع اور فرمانبردار بنائے۔