سیاسی جھگڑوں میں ضائع ہوتے رمضان کے قیمتی لمحات

ہر سال پاکستان میں رمضان المبارک کے خاص مذہبی و سماجی رنگ دیکھنے کو ملتے تھے، مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملتا، سحر و افطار کے وسیع دسترخواں دیکھنے کو ملتے، مگر اس سال رمضان کے روایتی رنگ سیاست کی نظر ہو چکے ہیں، کیونکہ رمضان المبارک کے آغاز سے پہلے تحریک عدم اعتماد شروع ہو چکی تھی جس پر یکم رمضان کو ووٹنگ طے تھی خیال تھا کی ووٹنگ کے بعد سیاسی کشیدگی میں کمی واقع ہو جائے گی تاہم سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو بیرونی سازش قرار دے کر مسترد کر دیا گیا۔

اس کے بعد سیاسی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا، اب چونکہ گیم توقعات کے برعکس الٹ چکی ہے تو سیاسی حریف کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔ تحریک انصاف کے حمایتی عین افطاری کے وقت ڈی چوک میں جمع ہوتے ہیں اور عمران خان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں۔ تحریک انصاف نے ہفتہ رواں کو جشن کا نام دیا ہے۔ اقتدار سے محرومی کے باوجود وہ جشن کس بات پر منا رہے ہیں یہ وہی بہتر جانتے ہیں۔

اسی طرح سوشل میڈیا پر ہر سیاسی جماعت کے حمایتی کمپین چلا رہے ہیں۔ سیاسی مہم اور مخالفین کا جواب دینے کیلئے وقت برباد کیا جا رہا ہے اور سیاسی حریفوں کو جواب دینے کیلئے جو لب و لہجہ اختیار کیا جا رہا ہے اسے نرم الفاظ میں نازیبا کہا جا سکتا ہے۔ روزہ صرف بھوکا پیاسا رہنے کا نام نہیں بلکہ بے ہودہ گفتگو سے پرہیز ضروری ہے۔

یوں رمضان کے قیمتی لمحات سیاسی جھگڑوں کی نذر ہو رہے ہیں۔ سیاسی حریف جس بات پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں وہ حتمی نہیں ہے اب بھی معاملہ توقعات کے برعکس ہو سکتا ہے تاہم رمضان کے قیمتی لمحات تیزی کے ساتھ گزر رہے ہیں، ایسی صورتحال میں ہر شخص کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ وہ کس راستے پر گامزن ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اللہ تعالی کو ناراض کرنے والے کام کریں اور امید رکھیں کہ وہ ہمیں کامیابی سے ہمکنار کرے گا؟ کسے معلوم آئندہ رمضان دیکھنا نصیب ہو نہ ہو اس رمضان میں زیادہ سے زیادہ نیکی کرنے کی کوشش کریں۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button