وزیر اعظم عمران خان کا گلو گیر لہجہ

وزیر اعظم عمران خان کی گفتگو اور چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ سیاسی جنگ ہار گئے ہیں مگر زبان سے اعتراف نہیں کر رہے۔ آج انہوں نے قوم سے خطاب کیا اس میں بھی ان کی آواز رندھی ہوئی تھی اس سے پہلے پریڈ گراؤنڈ میں خطاب کے دوران بیرونی مداخلت کا ذکر کرتے ہوئے وہ گلو گیر ہو گئے تھے، ہم عمران خان کے سخت ناقد رہے ہیں مگر بیرونی مداخلت کے حوالے سے اب جبکہ حقائق سامنے آ گئے ہیں کہ واقعی بیرونی قوتوں کی طرف سے دھمکی آمیز پیغام دیا گیا ہے تو اس موقع پر ہم عمران خان کے ساتھ ہیں کیونکہ وہ پاکستان کے وزیر اعظم ہیں۔

ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے معاملات کو کوئی بھی طاقت ور ملک اپنے طور پر چلانے کی کوشش کرے۔ عمران خان کے ساتھ جو بھی اختلافات ہیں وہ اندرونی ہیں جنہیں اندورنی سطح پر حل ہونا چاہئے۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ اپوزیشن جماعتوں کو ٹھنڈے دل سے سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر کل کلاں کسی دوسرے وزیر اعظم کو ایسا دھمکی آمیز پیغام آ گیا تو اس وقت ان کا ردعمل کیا ہو گا کیا سیاسی جماعتیں اس وقت بھی اپنے وزیر اعظم کے خلاف کھڑی ہوں گی؟

جمہوریت کیلئے ضروری ہے کہ جو بھی حکومت عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے اسے پانچ سال کام کرنے کا موقع دیا جائے۔ گزشتہ دو ادوار میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کو کام کرنے کا موقع ملا، انہوں نے پانچ سال پورے کئے بلکہ دونوں پارٹیوں نے ایک دوسرے کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا اسی کی بدولت ان کا ٹنیور پورا ہو سکا۔ تاہم تحریک انصاف کو پانچ سال پورے کرنے کا موقع نہیں دیا گیا اپوزیشن جماعتوں کے اس اقدام کی حمایت نہیں کی جا سکتی ہے۔

بہتر ہوتا تحریک انصاف پانچ پورے کرتی اور آئینی مدت کے اختتام پر عوامی عدالت کا سامنا کرتی اگر عوام کارکردگی سے مطمئن ہوتے تو دوبارہ موقع ملتا، عدم اطمینان کی صورت میں عوام مسترد کر دیتے، مگر اپوزیشن جماعتوں نے تحریک انصاف کی حکومت قائم ہونے کے بعد اسے ٹف ٹائم بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ اپوزیشن جماعتوں نے تحریک انصاف کی حکومت کو روز اول سے قبول ہی نہیں کیا تھا۔

تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں ہم توقع کر رہے تھے کہ عمران خان کے پاس ضرور آخری کارڈ ہو گا جسے آخری لمحات میں پیش کیا جائے گا مگر اپنی تقریر میں انہوں نے کہا کہ وہ جانے کے بعد پہلے سے زیادہ طاقت ور ہو کر آئیں گے اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جانے کی تیاری کر لی ہے اور بچاؤ کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا ہے۔

عمران خان اب جبکہ معاملات کو پرکھ چکے ہیں تو انہیں حقائق کو تسلیم کر لینا چاہئے، شکست کو کھلے دل سے تسلیم کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہے، پورے ملک میں ان کے فالورز موجود ہیں۔ میاں نواز شریف سخت صعوبتیں اٹھانے کے بعد تین بار ملک کے وزیر اعظم بن سکتے ہیں تو عمران خان کو بھی دوبارہ موقع مل سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے حامیوں کو چاہئے کہ طوفان برپا کرنے کی بجائے عوامی عدالت میں اپنے آپ کو پیش کر دیں۔

عمران خان کی آج کی تقریر سے کسی قدر مایوسی ہوئی، جو باتیں انہوں نے تقریر میں کی ہیں اس کی بجائے اگر وہ قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے کہ انہوں نے اپنے طور پر پاکستان کے مسائل کا ادراک کر کے انہیں حل کرنے کی کوشش کی مگر انہیں کامیابی نہیں ملی۔ وہ تمام تر حقائق کے قوم کے سامنے پیش کر دیتے اور ان ووٹرز کا شکریہ ادا کرتے جنہوں نے انہیں کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ مگر ایسا دکھائی دے رہا ہے جس طرح اپوزیشن جماعتیں ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کا سبب بنی ہیں اسی طرح تحریک انصاف بھی سیاسی عدم استحکام کے کھیل کو جاری رکھے گی۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button