بیٹی باپ کی ہدایت کا ذریعہ بن گئی

وہ شہر ریاض میں رہتا تھا اور فضول زندگی بسر کر رہا تھا، اسے اللہ تعالیٰ کی بہت کم معرفت تھی۔ کئی سال سے اُس نے مسجد کا منہ تک نہیں دیکھا تھا اور خدا کے حضور سجدہ ریز نہیں ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت ایسی تھی کہ اس کی توبہ کا سبب اس کی کم عمر بیٹی ہوئی۔ وہ اپنا قصہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:
میں اپنے اوباش دوستوں کے ساتھ رات گزارتا اور اپنی مسکین بیوی سے قطع تعلق رہتا، میرے اس رویے سے وہ جس قدر تنہائی، تنگی اور المناک صورت حال سے دوچار رہتی، اسے اللہ ہی جانتا ہے۔ میں ایسی وفادار رفیقۂ حیات کے حقوق ادا کرنے سے انتہائی کوتاہی برتتا، اس نے مجھے سمجھانے اور راہِ راست پر لانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا۔

ایک رات جب میں فضول شب باشی سے گھر لوٹا تو گھڑی سحری کے تین بجے کی طرف اشارہ کر رہی تھی۔ میں نے اپنی بیوی اور چھوٹی بیٹی کی طرف دیکھا جو گہری نیند میں خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہیں۔ میں دوسرے کمرے میں چلا گیا، تاکہ رات کا باقی حصہ وی سی آر سے ژولیدہ فلمیں دیکھ کر گزاروں۔ حالانکہ یہ وہ بابرکت وقت ہوتا ہے جب ہمارا رب عزوجل آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اعلان کرتا ہے: کیا کوئی دعا کرنے والا ہے میں اس کی دعا قبول کروں؟ کوئی استغفار کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں؟ کوئی سائل ہے کہ میں اس کا سوال پورا کروں؟

اچانک کمرے کا دروازہ کھل گیا۔ وہ میری ننھی بیٹی تھی، جس کی عمر پانچ سال سے زیادہ نہیں تھی۔ میں نے اس کی طرف تعجب اور حقارت سے دیکھا۔ وہ مجھ سے پہلے ہی بولنے لگی: ابوجان! شرمناک بات ہے، اللہ سے ڈریے (اس نے یہ الفاظ تین بار دہرائے) پھر دروازہ بند کر دیا اور چلی گئی۔

میرے اوسان خطا ہو گئے، میں نے ویڈیو فلم بند کی اور حیرانی کے عالم میں بیٹھ گیا، اس کی باتیں میرے کانوں سے ٹکرا رہی تھیں۔ قریب تھا کہ میری جان نکل جاتی، میں اس کے پیچھے گیا تو وہ اپنے بستر پر دوبار سو چکی تھی۔ میں نے ایک مجنوں کی طرح صبح کی، مجھے کیا ہوگیا تھا؟ مجھے کچھ پتہ نہیں تھا۔ چند لمحات گزرے تھے کہ قریبی مسجد سے مؤذن کی آواز گونجی، جو بھیانک رات کے سکون کے ٹکڑے ٹکڑے کر رہی تھی۔ میں نے وضو کیا اور مسجد کی طرف روانہ ہو گیا۔ میرے اندر نماز کا شوق تھا نہ رغبت۔ بس چھوٹی بچی کے الفاظ میرے قلب و روح کو بے چین اور مضطرب کیے ہوئے تھے۔

نماز کی اقامت ہوئی تو امام نے تکبیر کہی اور قرآن مجید کی تلاوت کی۔ و ہ سجدے میں گیا تو میں نے بھی اس کے پیچھے سجدہ کیا۔ جونہی میں نے اپنی پیشانی زمین پر رکھی تو میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، مجھے اس کا سبب معلوم نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے حضور سات سال میں یہ میرا پہلا سجدہ تھا۔ یہ آہ و بکا میرے لیے خیر و بھلائی کی چابی ثابت ہوئی، کیونکہ اس کے ساتھ ہی میرے دل سے ہر کفر، نفاق اور فساد جاتا رہا۔ میں نے محسوس کیا کہ ایمان میرے اندر سرایت کرنا شروع ہو گیا ہے۔ نماز کے بعد میں تھوڑی دیر مسجد میں بیٹھا، پھر اپنے گھر کی طرف لوٹ آیا، میں نے نیند کا ذائقہ نہیں چکھا اور اپنے کام پر چلا گیا۔ جب میرے دوست نے صبح سویرے مجھے کام پر پایا تو بہت تعجب کیا، رات بھر جاگنے کی وجہ سے میں کام پر تاخیر سے پہنچتا تھا۔ اس نے مجھ سے اس کی وجہ دریافت کی تو میں نے رات کی ساری کہانی سنائی۔ اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اس ننھی بچی کے سبب تجھے خواب غفلت سے بیدار کر دیا ہے اور ملک الموت کے بھیجنے سے پہلے ہی تیرے حالات بدل دیے ہیں۔

جب نمازِ ظہر کا وقت ہوا تو میں بہت تھک چکا تھا کہ کافی دیر سے سویا نہیں تھا۔ میں نے معذرت سے اپنا کام دوست کے سپرد کیا اور گھر کی طرف لوٹ آیا کہ تھوڑی دیر آرام کر سکوں۔ مجھے اپنی ننھی بیٹی کو دیکھنے کا بہت شوق تھا جو میری ہدایت اور رجوع الی اللہ کا باعث بنی تھی۔

میں اسی شوق کو سینے میں چھپائے گھر کی طرف لوٹا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے ہوا سے بھی زیادہ تیز چل رہا ہوں۔ جب گھر پہنچا تو خلاف معمول میری بیوی گھر کے سامنے کھڑی تھی اور مجھے دیکھ کر چلائی : تم کہاں تھے؟ میں نے کہا : کام پر۔ اس نے کہا: ہم نے تجھے بہت زیادہ فون کیے، تم نہیں ملے تھے، کہاں تھے؟ اس نے کہا: میں اپنے کام والی جگہ پر واقع مسجد میں تھا، ہوا کیا ہے اور اس وقت دروازے کے سامنے کیوں کھڑی ہو؟

وہ بولی: تیری بیٹی اللہ کو پیاری ہوگئی ہے۔ وہ آدمی بولا: صدمہ اتنا ہولناک تھا کہ میں اپنے آپ پر کنٹرول نہ رکھ سکا اور زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ مجھے اس کی وہی بات یاد آ رہی تھی : ’’ابو جان! شرمناک بات ہے! اللہ سے ڈریے، ابو جان! شرم ناک بات ہے! اللہ سے ڈریے‘‘ اس نے کہا: میں نے اپنے دوست کو فون کیا اور بتلایا کہ جو بیٹی میرے ظلمات سے نور کی طرف آنے کا سبب بنی تھی، وہ وفات پا گئی ہے۔ اس کا دوست جلدی سے آیا۔ پھر اس نے اپنی بیٹی کو غسل دیا، کفن پہنایا اور مسجد میں لے گئے۔ اس کی نمازِ جنازہ ادا کی اور قبرستان لے گئے۔

اس کے دوست نے کہا : اپنی بیٹی کو لحد میں اُتارو!
سو ہر رونے والا عنقریب اور رلایا جائے گا
اور موت کا عنقریب پیغام دیا جائے گا
ذخیرہ شدہ ہر چیز عنقریب فنا ہو جائے گی
ہر ذکر کردہ چیز عنقریب بھلا دی جائے گی
اللہ کے سوا کوئی باقی نہیں رہے گا
جو بلند ہو گا تو اللہ تعالیٰ سب سے بلند ہے

اس نے اپنی بیٹی کو لیا، دفن کیا اور ارد گرد موجود لوگوں سے کہہ رہا تھا: میں اپنی بیٹی کو نہیں بلکہ اس نور کو دفن کر رہا ہوں، جس نے اللہ کی جانب میرا راستہ روشن کر دیا۔ اس بیٹی کو اللہ تعالیٰ نے میری ہدایت کا سبب بنایا۔ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ ہمیں اپنی جنت میں اکٹھا فرما دے۔ سب لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، قریب تھا کہ غم سے ان کے دل پھٹ جاتے۔

معزز بھائیو! انسان کو نہیں معلوم کہ موت کا فرشتہ کب اس کے پاس آئے، موت چھوٹے اور بڑے کو نہیں جانتی۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’جب ان کا وہ وقت آ جاتا ہے تو وہ ایک ساعت نہ پیچھے رہ سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔‘‘ (النحل:۶۱)
ہمیں چاہیے کہ اپنے رب کی طرف تیز قدموں سے چلیں اور سچی توبہ کریں، شاید یہ زندگی کا آخری وقت ہو اور رحمن کی جنت ہماری جزا بن جائے۔

تحریر سوشل میڈیا پر شئیر کریں
Back to top button