قوموں کی ترقی میں فرد کا کردار
1965ء کا واقعہ ہے کہ ہندوستان کے ایک صنعت کار مغربی جرمنی گئے۔ وہاں ان کو ایک کارخانہ میں جانے کا موقع ملا۔ وہ اِدھر اُدھر گھوم کر کارخانہ کی کارکردگی دیکھتے رہے۔ اس دوران وہ ایک کاریگر کے پاس کھڑے ہو گئے اور اس سے کچھ سوالات کرنے لگے۔ بار بار خطاب کرنے کے باوجود کاریگر نے کوئی توجہ نہیں دی، وہ بدستور اپنے کام میں لگا رہا۔
کچھ دیر کے بعد کھانے کے وقفہ کی گھنٹی بجی ۔ اب کاریگر اپنی مشینوں سے اُٹھ کر کھانے کے ہال کی طرف جانے لگے۔ اس وقت مذکورہ کاریگر ہندوستانی صنعت کار کے پاس آیا۔ اس نے صنعت کار سے ہاتھ ملایا اور اس کے بعد تعجب سے کہا:
’’کیا آپ اپنے ملک کے کاریگروں سے کام کے وقت بھی باتیں کرتے ہیں؟ اگر اس وقت میں آپ کی باتوں کا جواب دیتا تو کام کے چند منٹ ضائع ہو جاتے اور کمپنی کا نقصان ہو جاتا۔ جس کا مطلب پوری قوم کا نقصان تھا۔ ہم یہاں اپنے ملک کو فائدہ پہنچانے کے لیے آتے ہیں، ملک کو نقصان پہنچانے کے لیے نہیں آتے۔‘‘
یہی وہ کردار ہے جو مغربی قوموں کی ترقی کا راز ہے۔ 1945ء میں اتحادی طاقتوں (الائڈ پاورز) نے جرمنی کو بالکل تباہ کر دیا تھا، مگر صرف 25سال بعد جرمنی دوبارہ پہلے سے زیادہ طاقتور ملک بن چکا تھا۔ اس کی ترقی کا راز یہی ہے کہ وہاں کا ہر فرد اپنی ذات کو اپنی قوم کے تابع سمجھتا ہے۔ ہر آدمی اپنی ذات کی تکمیل میں لگا ہوا ہے مگر قومی مفادات کی قیمت پر نہیں، بلکہ ذاتی جد و جہد کی قیمت پر۔ جہاں ذات اور قوم کے مفاد میں ٹکراؤ ہو وہاں وہ قوم کے مفاد کو ترجیح دیتا ہے اور اپنی ذاتی خواہش کو دبا لیتا ہے۔
قوم کی حالت کا انحصار ہمیشہ فرد کی حالت پر ہوتا ہے۔ فرد کے بننے سے قوم بنتی ہے اور فرد کے بگڑنے سے قوم بگڑ جاتی ہے۔ قوم کا معاملہ وہی ہے جو مشین کا معاملہ ہوتا ہے۔ مشین اس وقت صحیح کام کرتی ہے جب اس کے سارے پُرزے صحیح ہوں۔ اسی طرح قوم اس وقت درست رہتی ہے جب اس کے سارے افراد اپنی جگہ درست کام کر رہے ہوں۔ مشین بنانا یہ ہے کہ پرزے بنائے جائیں۔ اسی طرح قوم بنانا یہ ہے کہ افراد بنائے جائیں۔ فرد کی اصلاح کیے بغیر قوم کی اصلاح اسی طرح ناممکن ہے جس طرح پرزے تیار کیے بغیر مشین کھڑی کرنا۔